خوداعتمادی


عبداللہ کا نئے سکول میں پہلا دن تھا۔ وہ بہت پر جوش تھا۔ ایک دن پہلے ہی وہ اپنے لیے نیا یونیفارم، کارٹون والی بوتل اور ساری کتابیں لایا تھا۔ عبداللہ کے ابو امام مسجد تھے اور ساتھ ہی بہت اچھے مقرر تھے۔ جب وہ تقریر کرتے تو ان کی آواز میں ایک گرج ہوتی اور الفاظ میں ایسا جادو ہوتا کہ دور دور سے لوگ ان کی تقریر سننے آتے۔ عبداللہ کی بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے ابو کی طرح مقرر بنتا مگر اس میں ایک مسئلہ تھا کہ وہ یہ کہ عبداللہ بولتے ہوئے ہکلاتا تھا۔ 

عبداللہ صبح بہت خوش خوش اٹھا۔ اپنے ابو کے ساتھ جا کر مسجد میں نماز ادا کی واپس آ کر ناشتہ کیا اور سکول جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔ اس نے نیا یونیفارم پہنا، جوتے پہنے اور کنگھی کی۔ اس کا بستہ امی نے پہلے ہی تیار کر کے رکھا ہوا تھا۔ عبداللہ نے بستہ پہنا اور امی کی دعائیں لے کر اپنے ابو کے ساتھ سکول کی طرف چل پڑا۔ وہ سارا راستہ اپنے ابو سے باتیں کرتا گیا۔ عبداللہ کی خوشی اس کے چہرے پر صاف ظاہر تھی۔ عبداللہ کو سکول چھوڑ کر اس کے ابو واپس آ گئے۔

عبداللہ کلاس میں جا کر بیٹھ گیا۔ جب استانی جی آئیں تو انہوں نے سب سے اپنا اپنا تعارف کروانے کا کہا۔ جب عبداللہ کی باری آئی اور وہ بولا تو اس کے ہکلانے والے مسئلے کی وجہ سے بچوں نے اس کا بہت مذاق بنایا۔ عبداللہ کو بہت دکھ ہوا۔ باقی کا سارا دن عبداللہ خاموش رہا۔ چھٹی کے وقت اس کے ابو اسے لینے آئے۔ وہ سارا راستہ بھی خاموش رہا اور جب گھر پہنچا تو اس کی امی نے اس سے پوچھا کہ سکول کا پہلا دن کیسا رہا تو بھی وہ صرف ٹھیک تھا کہہ کر کمرے میں چلا گیا۔ اس کے والدین نے بھانپ لیا کہ اس کا دن اچھا نہیں گزرا۔ امی نے جب اسے دوپہر کے کھانے کے لیے بلایا تو اس کا چہرہ دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ رو رہا تھا۔ اس کے ابو نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے اس نے سارا واقعہ بتایا۔ اس کے والدین واقعہ سن کر پریشان ہو گئے۔ اگلے دن بھی عبداللہ سکول میں خاموش اور بجھا ہوا تھا۔ اب عبداللہ کا سکول جانے کا بھی دل نہیں کرتا تھا۔ عبداللہ کی ساری خوشی اور جوش ختم ہو گیا-

ایک دن عبداللہ کے ابو شام کے وقت اس اپنے ساتھ باہر لے کر گئے۔وہ اسے ایک پارک میں لے گئے اور وہاں بیٹھ کر اس سے باتیں کرنے لگے۔وہ عبداللہ کو ایک بچے کی کہانی سنانے لگے جو بولتے ہوئے ہکلاتا تھا اور سب اس کا مذاق اڑاتے تھے۔مگر اس بچے نے ان لوگوں کی باتوں پر دھیان نہ دیا۔اخر کار اس بچے کی خود اعتمادی نے ان سب لوگوں کے منہ بند کر دیئے جب وہ بچا ایک بہت اعلیٰ مقرر بن گیا۔ عبداللہ نے حیرانگی سے پوچھا کہ وہ بچہ کون تھا تو اس کے ابو نے جواب دیا کہ وہ بچہ میں تھا ۔ عبداللہ یہ سن کر مزید حیران ہو گیا۔ پھر اس نے اپنے ابو سے پوچھا کہ کیا وہ بھی ایک اچھا مقرر بن سکتا ہے تو اس کے ابو نے جواب دیا کہ ہاں کیوں نہیں۔ عبداللہ بولا کہ کیسے؟ تو اس کے ابو نے جواب دیا کہ مشق کرنے سے۔ عبداللہ کے ابو نے اسے ایک بہت اچھی تقریر لکھ کر دی اور کہا کہ تم یہ تقریر روزانہ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر پڑھا کروایسے ہی دن گزرتے گئے۔ 

عبداللہ روز شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ تقریر پڑھتا اور اپنے والدین کو بھی پڑھ کر سناتا وہ اس کی تعریف بھی کرتے۔ عبداللہ میں روز بروز بہتری آتی جارہی تھی اور اس کی خود اعتمادی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ پھر ایک دن اس کے سکول میں اعلان ہوا کہ ایک تقریری مقابلہ منعقد کیا جا رہا ہے۔ عبداللہ نے اس مقابلے میں حصہ لیا اور وہی تقریر کی جو اس کے ابو نے اسے لکھ کر دی تھی۔ عبداللہ اس مقابلے میں دوسرے نمبر پر آیا ۔ عبداللہ اور اس کے والدین اس کی کامیابی پر بہت خوش ہوئے۔ جو بچے اس کے ہکلانے کا مذاق اڑاتے تھے وہ اس کو کامیاب دیکھ کر بہت شرمندہ ہوئے۔ عبداللہ نے خود اعتمادی اور محنت و مشق کی وجہ سے اپنی کمزوری پر قابو پا لیا تھا۔

Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت