دھوکہ
اجمل کی مین بازار میں ایک چھوٹی سی سنار کی دکان تھی۔ اس دکان سے وہ اتنا کما لیتا تھا کہ اس کے تمام ضروری اخراجات پورے ہو جاتے تھے۔ مگر کہتے ہیں نہ کہ انسان ہمیشہ بہتر سے بہترین کی تلاش میں رہتا ہے۔ اسی طرح اجمل بھی اب اپنا کاروبار بڑھانا چاہتا تھا۔ اجمل نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے دوست کامران سے کیا۔ کامران نے اجمل سے کہا کہ وہ بھی کوئی کاروبار کرنا چاہتا ہے۔ اس کے پاس کاروبار میں لگانے کے لیے رقم بھی ہے۔ اگر اجمل چاہے تو وہ اپنی رقم اس کے ساتھ کاروبار میں لگا سکتا ہے۔ اجمل کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پاس ابھی رقم نہیں تھی۔ اس نے بہت سوچا کہ کس طرح وہ رقم کا انتظام کر سکتا ہے۔ دن رات وہ اسی سوچ میں گم رہتا تھا۔ اجمل کے گھر کے ساتھ والے گھر میں ایک بیوہ خاتون رہتی تھیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا۔ وہ اس کو پڑھانا چاہتی تھیں۔ لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہ تھے۔ میٹرک میں اس کی اعلی کارکردگی پر اس کو حکومت کی طرف سے وظیفہ ملتا تھا۔ جس سے وہ اپنے کالج کے اخراجات پورے کرتا تھا۔ اس کی ماں لوگوں کے کپڑے سلائی کر کے گھر کے اخراجات پورے کرتی تھیں۔ کالج کی پڑھ