Posts

Showing posts from July, 2019

دھوکہ

Image
اجمل کی مین بازار میں ایک چھوٹی سی سنار کی دکان تھی۔ اس دکان سے وہ اتنا کما لیتا تھا کہ اس کے تمام ضروری اخراجات پورے ہو جاتے تھے۔ مگر کہتے ہیں نہ کہ انسان ہمیشہ بہتر سے بہترین کی تلاش میں رہتا ہے۔ اسی طرح اجمل بھی اب اپنا کاروبار بڑھانا چاہتا تھا۔ اجمل نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے دوست کامران سے کیا۔ کامران نے اجمل سے کہا کہ وہ بھی کوئی کاروبار کرنا چاہتا ہے۔ اس کے پاس کاروبار میں لگانے کے لیے رقم بھی ہے۔ اگر اجمل چاہے تو وہ اپنی رقم اس کے ساتھ کاروبار میں لگا سکتا ہے۔ اجمل کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پاس ابھی  رقم نہیں تھی۔ اس نے بہت سوچا کہ کس طرح وہ رقم کا انتظام کر سکتا ہے۔ دن رات وہ اسی سوچ میں گم رہتا تھا۔  اجمل کے گھر کے ساتھ والے گھر میں ایک بیوہ خاتون رہتی تھیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا۔ وہ اس کو پڑھانا چاہتی تھیں۔ لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہ تھے۔ میٹرک میں اس کی اعلی کارکردگی پر اس کو حکومت کی طرف سے وظیفہ ملتا تھا۔ جس سے وہ اپنے کالج کے اخراجات پورے کرتا تھا۔ اس کی ماں لوگوں کے کپڑے سلائی کر کے گھر کے اخراجات پورے کرتی تھیں۔ کالج کی پڑھ

احساس

Image
نعمان اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ پڑھائی میں لائق اور ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کا بے حد ف رمابردار بھی تھا۔ وہ ابھی سکول میں تھا مگر اس کی شخصیت میں تحمل اور سمجھداری موجود تھے۔ وہ اپنے والدین کی خدمت کو عبادت کا درجہ دیتا تھا۔ مگر کچھ دنوں سے نہ جانے اس کو کیا ہوگیا تھا۔ وہ اپنے والدین سے بہت بد تمیزی کرنے لگا تھا اور ان کی بات سن کر بھی ان سنی کر دیتا تھا۔ اس کے والدین اس کے بدلے ہوئے رویے سے حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی تھے۔ کئی بار اس کی والدہ نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر نعمان نے ان کی کسی بھی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی والدہ بہت غمگین ہوگئیں۔ نعمان کے والد نے انہیں حوصلہ دیا اور سمجھایا کہ وہ خود نعمان سے بات کریں گے۔ اگلے دن نعمان کے والد نے اس سے بات کی تو بھی نعمان کے وہی تیور تھے۔ اس نے اپنے والد کی بھی کسی بات کا جواب نہ دیا بلکہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ نعمان کے والد بھی اس کی اس حرکت سے افسردہ ہو گئے۔ انہیں اپنا بچپن یاد آنے لگا کہ جب وہ بھی اپنے والد کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے تھے۔ ان کے والد محنت کر کے روزی کماتے

بدگمانی

Image
ارشد اور اکرم ہم جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے دوست بھی تھے۔ اکرم کے والد ایک معمولی سرکاری ملازم تھے۔ اتنی حیثیت نہ ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اکرم کو شہر کے اچھے سکول میں داخل کروایا۔ ارشد کے والد شہر کے بہت بڑے کاروباری آدمی تھے۔ مالی حالات میں فرق ہونے کے باوجود بھی ان دونوں کی دوستی بہت گہری تھی۔ ارشد بہت ہی ہمدرد اور نیک دل لڑکا تھا۔ وہ اکرم کی مالی مدد بھی کر دیتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اکرم کے والد سکول کے نوٹس اور باقی اخراجات پورے نہیں کر سکتے۔ ارشد اکثر اکرم کے گھر آتا تھا۔ اس کو اکرم کی والدہ کے ہاتھ کا کھانا بہت پسند تھا۔ مگر ان کی یہ دوستی صرف میٹرک تک ہی چلی۔ اس کے بعد ارشد نے آرٹس میں داخلہ لے لیا جبکہ اکرم نے سائنس کا انتخاب کیا۔  اکرم محنت کرکے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ایک بڑے ادارے میں اچھے عہدے پر نوکری کرنے لگ گیا۔ نوکری ملنے کے بعد اس کے والدین نے اس کی شادی کروا دی۔ عرض یہ کہ اکرم اپنی زندگی میں بہت خوش اور مطمئن تھا۔ اس نے پیسے جمع کرکے اپنے والدین کو حج بھی کروا دیا۔ اس کے والدین بھی اپنے بیٹے کی سعادت مندی اور تابعداری سے بہت خوش تھے اور ہر

اژدھا

Image
میرے ایک دوست کو گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے۔ وہ ہر جگہ گھوم چکا ہے۔ اس کو مختلف علاقوں میں جا کر وہاں کے لوگوں سے باتیں کرنا اور ان سے اس علاقے کے قصے سننا بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ اس سوشل میڈیا کے دور میں بھی فارغ اوقات میں اپنے ارد گرد کے لوگوں سے باتیں کرنا پسند کرتا ہے۔ اس کے اس شوق کی وجہ سے اس کا بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کا رویہ اور میزبانی بہت اچھی ہوتی ہے مگر بعض اوقات اسے ذلت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ جب بھی وہ کسی جگہ کی سیر سے واپس آتا ہے تو مجھ سے ملنے ضرور آتا ہے اور اپنے سفر کی داستان سناتا ہے۔ کبھی کبھی اس کے قصے سن کر میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں بھی اس کے ساتھ سفر کروں مگر میری نوکری مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔  اس بار بھی وہ سفر سے واپس آیا تو مجھ سے ملنے میرے گھر آیا۔ رسمی سلام دعا کے بعد میں نے اس سے سفر کا احوال معلوم کیا۔ وہ کہنے لگا کہ اس سفر میں اس کی ملاقات ایک بزرگ سپیرے سے ہوئی اور اس بزرگ نے اسے اپنے ایک دوست کا قصہ سنایا جو کہ بہت ہی عجیب ہے۔ اسکی یہ بات سن کر مجھے بھی تجسس ہوا کہ آخر کیا واقعہ ہے۔ لہذا میں نے اس سے واقعے کے بارے می

دل میں میل

Image
اجمل اور اکمل بھائی تھے۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد انہوں نے بہت جلد ہی کاروبار کے داؤ پیچ سیکھ لئے اور کاروبار کو ترقی کی بلندیوں تک لے گئے۔ دونوں میں بہت پیار اور اتفاق تھا۔ ہر کام ایک دوسرے کے مشورے سے کرتے، دفتر کے لوگوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ دفتر کے لوگ بھی ان دونوں سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔ ان کو دفتر میں ایک نئے ملازم کی بھرتی کرنی تھی۔ انہوں نے اشتہار دیا اور نوکری کے خواہشمند لوگوں میں سے چھانٹ کر چند لوگوں کو انٹرویو کیلئے بلایا۔ انٹرویو کے بعد ناصر نامی لڑکے کوبھرتی کر لیا۔  ناصر کو دفتر میں آئے چند دن ہی ہوئے تھے۔ وہ ان دونوں بھائیوں کی محبت اور اتفاق دیکھ کر حسد کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ان میں سے کسی ایک کی خوشامد کرکے ان کے قریب ہو جائے اور دفتر پر حکومت کرے۔ ایسا تب ہی ممکن تھا جب وہ ان دونوں کو الگ کرتا۔ لہذا اس نے منصوبہ بنایا کہ وہ پہلے محنت کرکے ان دونوں کا اعتماد حاصل کرے گا اور پھر ان دونوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرے گا اور ان کو الگ کر دے گا۔ وہ دل لگا کر کام کرنے لگ گیا۔ اجمل اوراکمل اس کے کام سے بہت خوش تھے۔ بہت جلد ہی ناصر دونوں کا اعتماد حاص

صحبت

Image
والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے ان کی ساری امیدیں ارسلان سے ہی وابستہ تھیں۔ ارسلان بھی اپنے والدین کی تمام امیدوں پر پورا کرنے کی بھرپورکوشش کرتا تھا۔ وہ بہت ہی لائق، تابعدار اور شریف لڑکا تھا۔ میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کرنے کے بعد اس نے شہر کے سب سے اچھے کالج میں داخلہ لیا۔ کالج کے پہلے ہی دن ارسلان کی دوستی حسن اور احمد سے ہوگئی۔ وہ دونوں ارسلان سے کافی مختلف تھے۔ اساتذہ سے بدتمیزی، رات دیر تک  گھومنا پھرنا اور پڑھائی پر دھیان نہ دینا ان کے لئے معمولی باتیں تھیں۔ ارسلان بھی ان کے ساتھ رہ کر ان کے جیسا ہونے لگ گیا تھا۔ اس کے والدین نے بھی اس کی عادات اور رویے میں تبدیلی محسوس کی۔ وہ آئے دن کالج سے چھٹی کر لیتا۔ کبھی کبھی تو رات کو کافی دیر سے گھر واپس آتا۔ جب اس کے والدین دیر سے آنے کی وجہ پوچھتے تو ارسلان غصہ ہو جاتا۔ پہلے تو ارسلان اپنے والدین سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتا تھا اور اب وہ ان سے بدتمیزی کرنے لگا تھا۔ رات کو دیر سے آنا اس کا معمول بن چکا تھا۔ پڑھائی میں بھی اب اس کا دل نہیں لگتا تھا۔ کالج سے بھی اس کی شکایات آنے لگ گئیں۔ اس کے والدین بہت پریشان تھے۔

سلوک

Image
دو دوست ساحل کنارے سیر کے لیے نکلے۔دورانِ سیر ان دونوں میں کسے بات پر بحث چل نکلی۔بحث میں ایک دوست کو غصہ آ گیا اور اس نے دوسرے دوست کو زوردار تھپڑ رسید کر دیا۔جس دوست کو تھپڑ لگا وہ خاموشی سے چلتا رہا اور کچھ دور جا کر اس نے ریت پر یہ لکھا “ آج میرے بہترین دوست نے مجھے تھپڑ مارا۔“ دونوں خاموشی سے آگے چلتے رہے۔جس دوست کو تھپڑ لگا تھا اس نے سوچا کہ سمندر میں نہایا جائے۔اس نے اپنا سامان سمندر کنارے رکھا اور نہانے چلا گیا۔دوسرا دوست کنارے پر کھڑا رہا۔ سمندر میں وہ ذرا گہرے پانی میں چلا گیا۔ اچانک ایک زوردار لہر آئی اور وہ ڈوبنے لگا۔دوسرا دوست جو سمندر کنارے کھڑا تھا اس نے فوراَ اپنے دوست کو بچایا اور خیریت سے سمندر کنارے لے آیا۔ جب اُس دوست کی حالت ذرا بہتر ہوئی تو وہ اٹھا اور ایک پتھر اور لوہے کی کیل سے ایک بڑے پتھر پر یہ کُندہ کر دیا “آج میرے بہترین دوست نے میری جان بچائی“ جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور اس کی جان بچائی تھی،اس نے پوچھا “جب میں نے تمہیں تکلیف دی تو تم نے ریت پر لکھا ،اب اس پتھر پر کیوں لکھا ہے“ ۔ دوسرے نے جواب دیا “ جب کوئی آپ کو تکلیف پہچائے تو

ہیرے کی پہچان

Image
بادشاہ نے کانچ کے ھیرے اور اصلی ھیرے ایک تھیلی میں ڈال کر اعلان کیا "ھے کوئی جوھری جو کانچ اور اصلی ھیرے الگ کر سکے " شرط یہ تھی کہ کامیاب جوھری کو منہ مانگا انعام اور ناکام کا سر قلم کردیا جائے گا ۔ درجن بھر جوھری سر قلم کروا بیٹھے ۔ کیوں کہ کانچ کے نقلی ھیروں کو اس مہارت سے تراشا گیا تھا کہ اصلی کا گمان ھوتا تھا ۔ ڈھنڈھورا سن کر ایک اندھا شاھی محل میں حاضر ھوا۔ فرشی سلام کے بعد بولا کہ میں وہ ھیرے اور کانچ الگ الگ کر سکتا ہوں ۔ بادشاہ نے تمسخر اڑایا اور ناکامی کی صورت میں سر قلم کرنےکی شرط بتائی۔ اندھا ھر شرط ماننے کو تیار ھوا ۔ ھیروں کی تھیلی اٹھائی اور محل سے نکل گیا ۔ ایک گھنٹے بعد حاضر ھوا اس کے ایک ھاتھ میں اصلی اور دوسرے ھاتھ میں کانچ کے نقلی ھیرے تھے ۔ شاھی جوھریوں نے تصدیق کی کہ اندھا جیت گیا ھے ۔ بادشاہ بہت حیران ھوا اس کی حیرت کی انتہا نہ رھی کہ ایک جو کام آنکھوں والے نہ کر سکے وہ کام ایک نابینا کیسے کر گیا ۔ بادشاہ نے اندھے سے دریافت کیا کہ اس نے اصلی اور نقلی کی پہچان کیسے کی؟ اندھا بولا یہ تو بہت آسان ھے "میں نے ھیروں کی تھیلی کڑی دھوپ میں

وعدہ

Image
کہتے ھیں کہ ایران کا ایک بادشاہ سردیوں کی شام جب اپنے محل میں داخل ھو رھا تھا تو ایک بوڑھے دربان کو دیکھا جو محل کے صدر دروازے پر پُرانی اور باریک وردی میں پہرہ دے رھا تھا۔ بادشاہ نے اُس کے قریب اپنی سواری کو رکوایا اور اُس ضعیف دربان سے پوچھنے لگا: "سردی نہیں لگ رھی؟" دربان نے جواب دیا: "بہت لگتی ھے حضور۔ مگر کیا کروں، گرم وردی ھے نہیں میرے پاس، اِس لئے برداشت کرنا پڑتا ھے۔" "میں ابھی محل کے اندر جا کر اپنا ھی کوئی گرم جوڑا بھیجتا ھوں تمہیں۔" دربان نے خوش ھو کر بادشاہ کو فرشی سلام کہے اور بہت تشکّر کا اظہار کیا، لیکن بادشاہ جیسے ھی گرم محل میں داخل ھوا، دربان کے ساتھ کیا ھوا وعدہ بھول گیا۔ صبح دروازے پر اُس بوڑے دربان کی اکڑی ھوئی لاش ملی اور قریب ھی مٹّی پر اُس کی یخ بستہ انگلیوں سے لکھی گئی یہ تحریر بھی: "بادشاہ سلامت، میں کئی سالوں سے سردیوں میں اِسی نازک وردی میں دربانی کر رھا تھا مگر کل رات آپ کے گرم لباس کے وعدے نے میری جان نکال دی۔" لہذٰا کسی سے وعدہ کر کے بھولنا چاہئیے۔ ایسا وعدہ بھی نہیں کرنا چاہیئے جو آپ پورا ن

وفاداربیوی

Image
حضرت ایوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی تھے۔ آپ نہایت شاندار زندگی گزارر ہے تھے۔ آپ کے پاس بے شمار نوکر چاکر، غلام ، اولاد، بیویاں ، لونڈیاں، جائیداد ، مال ومتاع اور اللہ کا دیا بہت کچھ تھا۔ آپ اللہ کی ان نعمتوں کا خوب شکر کیا کرتے تھے۔ایک روایت کے مطابق شیطان نے اللہ سے کہا کہ اگر ایوب کے پاس اتنی آسائشات نہ ہوتیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی اتنی عبادت نہ کرتا۔ اس پر ایوب علیہ السلام کی اطاعت وبندگی کی آزمائش کا سلسلہ شروع ہوا۔ آپ کی تمام دولت جائیداد ختم ہو گئی۔ اولاد، غلام، لونڈی ،مال ومتاع اور ایک کے سوا البقیہ تمام بیویوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ بات یہاں تک ہی محدود نہ رہی۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی صحت بھی جاتی رہی۔ آپ کو جذام کے مرض نے آگھیرا اور زبان کے سوا آپ کا تمام جسم مبارک اس مرض سے متاثر ہوا۔ حالت یہ ہو گئی کہ آس پاس کے لوگ آپ سے گھن کھانے لگے۔ آپ کو اپنی جائے سکونت تبدیل کرنا پڑی۔ شہر کے ظالم لوگوں نے آپ کو شہر سے باہر اس جگہ ڈال دیا جہاں وہ اپنا کوڑا کرکٹ پھینکا کرتے تھے۔ ان حالات میں آپ کی زوجہ محترمہ نے آپ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ انہوں نے آپ کی خدمت کو اپنا م

الفاظ کی طاقت

Image
ایک زمانے میں کسی بادشاہ نے دوسرے بادشاہ کے ملک پر چڑھائی کر دی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ ہم جنگ پر جا رہےہیں فوراً شاہی دست شناس کو بلایا جائے کہ ایسی کون سی تدبیر ہو گی کہ ہم فاتح رہیں۔ جب بادشاہ کے ہرکارے شاہی دست شناس کے پاس پہنچے اور بادشاہ کا حکم سنایا تو دست شناس نے کہا کہ وہ کافی دنوں سے بیمار ہے اور دربار میں حاضر ہونے سے قاصر ہے مگر بادشاہ سلامت کا حکم بھی ٹالا نہیں جا سکتا۔ اس نے اپنے ہونہار شاگرد کو یہ کہہ کر بادشاہ کی طرف روانہ کیا کہ یہ میری طرح کا دست شناس ہے۔ میری اور اس کی باتوں میں ذرا بھر فرق نہ ہو گا۔ جب شاگرد بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا تو بادشاہ نے اس کے آنے کی وجہ پوچھی جب بادشاہ کو بتایا گیا کہ شاہی دست شناس بیمار ہے اور اس نے اپنے شاگرد کو بھیجا ہے تو بادشاہ نے حکم دیا کہ میرا ہاتھ دیکھو اور بتاؤ کہ جنگ کا کیا ہو گا؟  شاگرد نے بادشاہ کا ہاتھ دیکھا اور بتانا شروع کر دیا کہ آپ کو اور آپ کی فوج کو بری طرح شکست ہو گی ان میں بہت سے لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور آپ جنگ میں پکڑے جائیں گے۔ آپ کو میدان جنگ میں بری طرح گھسیٹا جائے گا اور.... باد