اژدھا



میرے ایک دوست کو گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے۔ وہ ہر جگہ گھوم چکا ہے۔ اس کو مختلف علاقوں میں جا کر وہاں کے لوگوں سے باتیں کرنا اور ان سے اس علاقے کے قصے سننا بہت اچھا لگتا ہے۔ وہ اس سوشل میڈیا کے دور میں بھی فارغ اوقات میں اپنے ارد گرد کے لوگوں سے باتیں کرنا پسند کرتا ہے۔ اس کے اس شوق کی وجہ سے اس کا بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کا رویہ اور میزبانی بہت اچھی ہوتی ہے مگر بعض اوقات اسے ذلت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ جب بھی وہ کسی جگہ کی سیر سے واپس آتا ہے تو مجھ سے ملنے ضرور آتا ہے اور اپنے سفر کی داستان سناتا ہے۔ کبھی کبھی اس کے قصے سن کر میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں بھی اس کے ساتھ سفر کروں مگر میری نوکری مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ 

اس بار بھی وہ سفر سے واپس آیا تو مجھ سے ملنے میرے گھر آیا۔ رسمی سلام دعا کے بعد میں نے اس سے سفر کا احوال معلوم کیا۔ وہ کہنے لگا کہ اس سفر میں اس کی ملاقات ایک بزرگ سپیرے سے ہوئی اور اس بزرگ نے اسے اپنے ایک دوست کا قصہ سنایا جو کہ بہت ہی عجیب ہے۔ اسکی یہ بات سن کر مجھے بھی تجسس ہوا کہ آخر کیا واقعہ ہے۔ لہذا میں نے اس سے واقعے کے بارے میں پوچھا۔ وہ کہنے لگا کہ ان بزرگ کا ایک سپیرا دوست تھا۔دن رات نت نئے اور زہریلے سانپوں کی تلاش میں جنگل بیاباں، کوہ و صحرا میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا ۔ ایک دفعہ سخت سردی کے موسم میں پہاڑوں میں سانپ تلاش کررہا تھا۔ اس نے ایک مُردہ اژدھا دیکھا جو بھاری کم اور قوی الجثہ تھا۔ اسے خیال آیا کہ اگر مُردہ اژدھے کو کسی طریقے سے شہر لے جائے تو دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہوجائے گا۔ لوگوں کے جمع ہوجانے سے وہ خوب مال کمائے گا۔ اژدھا کیا تھا ستون کا ستون تھا۔ وہ اسے بڑی مشکل سے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر گھسیٹ کر شہر لے آیا۔ غرض اس کے اس کارنامے سے شہر میں اودھم مچ گیا۔ تو چل میں چل، جس کے کانوں میں یہ خبر پہنچی کہ وہ ایک نادر قسم کا اژدھا پکڑکر لایا ہے، وہ سب کام چھوڑ کر اسے دیکھنے چل پڑا۔ سینکڑوں و ہزاروں لوگ جمع ہوگئے۔بے پناہ سردی اور برف باری کی وجہ سے اژدھے کا جسم سُن ہوچکا تھا۔ برف سے ٹھٹھرنے کے باعث وہ مُردہ دکھائی دے رہا تھا۔ ہجوم کی گرمی اور سورج کی روشنی سے اچانک اژدھے کے جسم میں تھرتھری پیدا ہوئی اور اس نے اپنا منہ کھول دیا۔ 

اژدھے کا منہ کھولنا تھا کہ قیامت برپا ہوگئی۔ بدحواسی اور خوف سے جس کا جدھر منہ اٹھا اُدھر ہی بھاگا۔ جوں جوں آفتاب کی گرم دھوپ اژدھے پر پڑتی تھی توں توں اس کے جوڑ جوڑ اور بند بند میں زندگی نمودار ہوتی تھی۔ 

مارے دہشت کے اس سپیرے کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ 

اس نے جی میں کہا: غضب ہوگیا، یہ پہاڑ سے میں کس آفت کو اٹھا لایا۔ اپنے ہاتھوں اپنی موت بلالی! ابھی وہ بھاگنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدھے نے اپنا غار سا منہ کھول کر اس کو نگل لیا۔ 

پھر وہ رینگتا ہوا آگے بڑھا اور ایک بلند عمارت کے ستون سے اپنے آپ کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ اس سپیرے کی ہڈیاں بھی سرمہ ہوگئیں۔

یہ قصہ سن کر مجھے اس سپیرے کا بہت دکھ ہوا۔خیر میرا دوست کھانا وغیرہ کھا کر واپس چلا گیا۔ میں رات کافی دیر تک بیٹھا سوچتا رہا کہ اس اژدھے نے بالکل ہمارے نفس جیسا کام کیا ہے۔ ہمارا نفس بھی ذرائع اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے مردہ نظر آتا ہے۔ ہم عبادت میں مشغول رہتے ہیں اور دنیا کی رنگینیوں سے دور رہتے ہیں تو یہ بھی بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے مگر جیسے ہی ہمارا دھیان عبادت سے ہٹ کر دنیا کی طرف ہوتا ہے تو ہمارے نفس کو حرارت ملتی ہے اور یہ حرکت میں آ جاتا ہے بالکل اس اژدھے کی مانند اور ہمیں ہی کھا جاتاہے




Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت

خوداعتمادی