Posts

Showing posts from August, 2019

سستی

Image
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چوہا تھا۔ وہ ایک گھر میں بل میں رہتا تھا۔ اس گھر کے لوگ جو اشیاء استعمال کرکے پھینکتے تھے ان چیزوں کو کھا کر وہ چوہا اپنا گزر بسر کرتا تھا۔ اچانک ہی ان لوگوں کو وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد وہ گھر خالی ہو گیا۔ کچھ دنوں تک تو ان کی بچی کھچی چیزوں سے چوہے نے اپنا پیٹ بھرا، مگر وہ چیزیں کتنے دن چلتیں۔ آخرکار وہ چیزیں ختم ہوگئیں اور چوہے پر فاقوں کی نوبت آگئی۔ چوہے نے سوچا کہ اب اس جگہ سے کہیں اور چلا جائے تاکہ کھانے کو تو کچھ ملے۔ چوہے نے اپنا ضروری سامان ساتھ لیا اور نئے ٹھکانے کی تلاش میں نکل پڑا۔  اس کا گزر ایک دکان سے ہوا۔ اس دکان میں کھانے پینے کی تمام اشیاء موجود تھیں۔ چوہا چونکہ کافی دنوں سے بھوکا تھا، اس لیے وہ اس دکان میں جا گھسا اور دکان کے مالک سے چھپ کر چیزیں کھانے لگا۔ جب اس نے پیٹ بھر کر کھا لیا تو ایک آٹے کی بوری کے ساتھ ٹیک لگا کر آرام کرنے لگ گیا۔ چوہے نے سوچا کہ یہ جگہ تو بہت اچھی ہے، کھانے کو بھی بہت کچھ ہے اس لیے اس نے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اب چوہا روزانہ پیٹ بھر کر کھاتا اور وہیں پڑا رہتا۔ زیادہ ک

محنت

Image
حامد کے والد ایک مزدور تھے۔ جس دن ان کو مزدوری ملتی تھی اس دن ان کے گھر کا چولہا جلتا اور اگر کسی دن  مزدوری نہ ملتی تو نوبت فاقوں تک آ جاتی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ حامد سکول سے واپس آیا تو اسے شدید بھوک لگی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ سے کھانا دیں تو والدہ نے جواب دیا کہ گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے اور کچھ خریدنے کیلئے پیسے بھی نہیں ہیں۔ حامد کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا۔ اس نے سوچا کہ یہ تو بہت غلط بات ہے۔ اس کو محنت کر کے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالنا چاہیے۔ یہی سوچ کر اس نے بازار کا رخ کیا اور وہاں سے ادھار برف لے کر ایک بالٹی میں ڈالی اور گلاس لے کر سینما کے سامنے پہنچ گیا۔ گرمی کی وجہ سے لوگوں کو پیاس لگی ہوئی تھی۔ اس نے وہاں پر دس روپے فی گلاس بیچا۔ واپسی پر برف کے پیسے ادا کیے اور باقی پیسوں سے کھانے کا سامان لے کر گھر آ گیا۔  اب حامد کا یہی معمول تھا۔ وہ بازار سے برف لیتا شربت بنا کر وہ برف اس میں ڈال کر بیچا کرتا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ محنت بھی کرتا تھا۔ اسی طرح اس نے بی اے کر لیا اور اس کے بعد اسے ایک اچھی کمپنی میں نوکری مل گئی۔ حامد نے ا

حسد

Image
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اڑنے والے کیڑوں نے آپس میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دراصل ہوا کچھ یوں کہ بھونرا(لیڈی برڈ), مکھی، شہد کی مکھی، تنبوڑی، اور ٹڈی دل (ڈریگن فلائی) باتیں کر رہے تھے۔ سب کا یہی خیال تھا کہ وہی سب سے زیادہ تیز اڑتا ہے۔ باتوں باتوں میں بحث چھڑ گئی۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ اگلے دن سب اسی جگہ جمع ہوں گے اور کٹی چٹان تک جو سب سے پہلے پہنچا، وہی سب سے تیز اڑتا ہے۔ سب نے حامی بھر لی۔  اگلے دن مقررہ وقت پر سب وہاں جمع ہوگئے۔ چیونٹی کو منصف کے فرائض ادا کرنے کے لیے بلایا۔ جب سب  لائن میں کھڑے ہوکر چیونٹی کے اشارے کا انتظار کر رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک گھونگا (سنیل) بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ سب اس گھونگے کا مذاق اڑانے لگ گئے کہ یہ ہم سے مقابلہ کرنے آیا ہے۔ تیزی کا مقابلہ ہورہا ہے، کوئی سست رفتاری کا مقابلہ نہیں ہے۔ سب کے رویوں اور باتوں سے گھمنڈ اور غرور صاف ظاہر تھا۔ خیر چیونٹی نے اشارہ کیا اور سب کٹی چٹان کی جانب تیز رفتاری سے اڑ پڑے۔ سب کیڑے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں تھے۔ دوسری طرف گھونگا آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ سست ہونے کی و

طاقت

Image
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چڑیا سارا دن دانے کی تلاش میں اڑتی پھرتی رہی مگر اس کو کہیں بھی دانہ نہ ملا۔ بھوک سے نڈھال چڑیا نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور تلاش جاری رکھی۔ کہیں پر شکاری نے دانہ ڈال کر جال بچھا رکھا تھا کہ کوئی بیچاری بھوکی چڑیا دانوں کی لالچ میں جال میں پھنس جائے۔ اس چڑیا نے جال میں پھنسنے سے بھوکا رہنا مناسب سمجھا۔ جیسے جیسے شام ہو رہی تھی اس چڑیا کے ہمت جواب دیتی جا رہی تھی۔ آخر ایک جگہ پر اس نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی لڑکی مرغیوں کو دانہ ڈال رہی ہے۔ اس چڑیا نے سوچا کہ وہ بھی ان مرغیوں کے ساتھ دانہ کھا لے۔ یہی سوچ کر وہ اس جگہ جاکر بیٹھ گئی۔ ابھی وہ دانوں کے قریب جانے ہی لگی تھی کہ ایک مرغی نے اس کو غصے سے گھورا جیسے کہہ رہی ہو کہ یہ اس کے دانے ہیں۔ اس مرغی کی غصیلی نگاہوں سے چڑیا سہم سی گئی۔ وہ مرغی سے بچنے کے لیے دوسری طرف ہوئی تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک خونخوار قسم کا کتا رال ٹپکائے اس کی جانب چلا آرہا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی فرار کا راستہ اپناتی وہ کتا اس پر جھپٹ پڑا۔ بہت مشکل سے جان بچا کر وہ چڑیا ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی میں جا بیٹھی اور جان بچ جانے پر شکر ادا کرنے لگی۔

رحمدل

Image
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک بادشاہ تھا۔ اس بادشاہ کا ایک خاص وزیر تھا، جو بہت ہی نیک اور رحمدل تھا۔ اس نے کبھی بھی اپنے بادشاہ کو کوئی غلط مشورہ نہ دیا۔ ہمیشہ عوام اور قوم کی بھلائی کی ہی تجویز دی۔ اسی وجہ سے وہ وزیر بادشاہ کو بہت عزیز تھا۔  ایک بار ایسا ہوا کہ شکار کھیلتے ہوئے اس وزیر کی نظر ایک ہرن پر پڑی، جو بھاگ کر اس کے سامنے سے گزرا تھا۔ اس وزیر نے ہرن کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے گھوڑا دوڑا دیا۔ کچھ دور بھاگنے کے بعد پھرتی سے اس وزیر نے وہ ہرن پکڑ لیا۔ پکڑنے پر معلوم ہوا کہ وہ ہرن ابھی بچہ ہے۔ خیر وہ وزیر اس ہرن کے بچے کو اٹھا کر گھوڑے پر سوار ہو کر واپس چل پڑا۔ کافی دور چلنے کے بعد اس وزیر کو محسوس ہوا کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ جب اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک ہرنی اس کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس ہرنی کی آنکھوں میں آنسو ہوں۔ وہ اس ہرن کی ماں تھی۔ گویا وہ کہہ رہی ہو کہ اس سے اس کی اولاد کو مت چھینو۔ اس ہرن کی آنکھوں میں بھی درد اور تکلیف نمایاں تھی۔ اس ہرنی کی آنکھوں میں التجا صاف نظر آرہی تھی۔ اس رحمدل وزیر کو ترس آگیا۔ اس نے گھوڑے سے اتر کر

سزا

Image
ہادی بہت ہی شرارتی بچہ تھا۔ سارے گاؤں والے اس کی شرارتوں سے پریشان تھے۔ اس کو دوسروں کو تنگ اور پریشان کرکے خوشی ہوتی تھی۔ اس کی امی اس کو بہت سمجھاتی تھیں۔ مگر اس پر کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ انسان تو انسان وہ جانوروں کو بھی تنگ کرتا تھا۔ بلاوجہ جانوروں کو پتھر مارتا تھا، ان کی دم کھینچتا تھا۔ غرض یہ کہ ہر طرح سے اس نے سب کو تنگ کیا ہوا تھا۔  ایک دن وہ حسب معمول باہر کھیلنے گیا تو اس نے ایک بلی دیکھی۔ جو دیوار پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ اس بلی کو تنگ کرنے کی غرض سے اینٹیں جمع کرکے اس بلی تک پہنچنا چاہتا تھا۔ جیسے ہی وہ بلی کے قریب پہنچا بلی وہاں سے بھاگ گئی۔ ہادی اس کو تنگ کرنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگا۔ وہ بلی بھاگتے بھاگتے بہت دور نکل گئی۔ ہادی بھی اس بلی کے پیچھے تھا۔ اچانک وہ بلی کسی گھر میں گھس گئی۔ اب ہادی اس بلی کے پیچھے نہیں جا سکتا تھا۔ اس لئے وہیں رُک گیا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اب وہ آگے کیا کرے تو اس کی نظر اسی گھر کی دیوار پر پڑی۔ وہی بلی جو اس گھر میں گھسی تھی۔ وہ اب اس دیوار پر براجمان تھی۔ ہادی اس کو تنگ کرنے کے لئے آگے بڑھا اور جھٹ سے اس کی دم پکڑ لی۔ وہ

کڑوی روٹی

Image
ایک بار کام کے سلسلے میں مجھے قبائلی علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرا وہاں ایک ہفتے کا قیام تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ وہ لوگ جب روٹی بناتے ہیں تو پہلی روٹی کو کڑوی روٹی کہتے ہیں۔ مجھے یہ پتہ لگا تو میں بہت حیران ہوا۔ میں نے وہاں کے ایک مقامی آدمی سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرہ ہے تو اس نے بتایا کہ اس کے پیچھے ایک واقعہ ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا واقعہ ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ بہت پہلے کی بات ہے کہ ایک بار کوئی نیک بزرگ ان قبائلیوں کے پاس تبلیغ کے لیے آئے۔ ان بزرگ نے وہاں کے لوگوں کو نماز، روزہ، زکوۃ وغیرہ کی پابندی کی تلقین کی۔ وہاں قیام کے دوران ان بزرگ نے دیکھا کہ اس علاقے کے کچھ لوگ غریب ہیں اور وہ بہت مشکل سے اپنے کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ غربت کی وجہ سے وہ لوگ پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ ان بزرگ نے سوچا کہ یہ لوگ بہت سفید پوش اور خوددار ہیں۔ کسی سے مانگنا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے ان بزرگ نے ایک ایسی راہ نکالی جس سے ان غریب اور مفلس لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہو اور انکی خوداری پر بھی حرف نہ آئے۔ ان بزرگ نے اس علاقے کے سب لوگوں سے کہا کہ اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خ

بھلائی

Image
کہتے ہیں کہ کسی بستی میں ایک بچہ رہتا تھا۔ اس بچے کے والد وفات پا چکے تھے۔ وہ ایک جھونپڑی میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتا تھا۔ باقی بستی والوں کی طرح وہ بھی قریبی دریا سے مچھلیاں پکڑتا اور ان کو بیچ کر اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ پالتا تھا۔ باقی سب لوگ زیادہ مچھلیاں پکڑ لیتے تھے مگر اس بیچارے کے جال میں بہت کم مچھلیاں پھنستی تھیں۔ وہ سارا دن جال بچھا کر بیٹھا رہتا پر کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ وہ دکھی ہو کر گھر واپس لوٹ جاتا۔  ایک دن وہ حسب معمول جال بچھا پر مچھلیوں کے پھنسنے کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک چھوٹی سی مچھلی اس کے جال میں پھنسی۔ اس نے فوراً جال اٹھا کر اس میں سے مچھلی نکالی اور اپنے پاس رکھی ہوئی ٹوکری میں ڈال دی۔ وہ اداس ہو کر مچھلی کو دیکھنے لگ گیا کہ سارا دن جال لگائے رکھنے کے بعد بھی ایک چھوٹی سی مچھلی ہی اس کو ملی ہے۔ ابھی وہ  اسی سوچ میں تھا کہ اس کو کسی جانور کی درد بھری آواز سنائی دی۔ وہ اس آواز کا تعاقب کرتے ہوئے پاس والی جھاڑیوں کے پیچھے چلا گیا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک لومڑی کے پاؤں میں رسی بندھی ہوئی تھی۔ اس بچے نے اپنی جیب سے چاقو نکالا اور رسّی کاٹ کر اس

منافع

Image
فرحان ایک تاجر تھا۔ وہ چینی اور نمک کا کاروبار کرتا تھا۔ باقی تاجروں کی طرح وہ بھی ان پر اپنا منافع رکھ کر ان کو فروخت کرتا تھا۔ اس منافع سے وہ اپنے گھر کے اخراجات پورے کرتا تھا۔ جہاں سے وہ چینی لیتا تھا وہاں سے اور بھی بہت سے تاجر چینی لیتے تھے۔ ان تاجروں میں سے ایک تاجر ایسا بھی تھا جو جس قیمت پر چینی خریدتا تھا اسی قیمت پر فروخت کردیتا تھا۔ جب فرحان کو یہ بات پتا لگی تو وہ بہت حیران ہوا۔ اس کو پہلے تو اس بات پر یقین ہی نہیں ہوا مگر جب دو چار لوگوں سے اس بات کی تصدیق ہوئی تو اس کو وہ شخص دماغی طور پر تھوڑا کھسکا ہوا لگا۔  فرحان نے سوچا کہ وہ شخص اگر منافع نہیں رکھتا تو اپنے اخرجات کہاں سے پورے کرتا ہے۔ فرحان نے دل میں طے کیا کہ وہ اس شخص سے ضرور ملے گا اور اس سے پوچھے گا کہ اگر منافع نہیں رکھتا تو اخرجات کیسے پورے کرتا ہے۔ لہذا فرحان نے اس تاجر کے بارے میں معلومات لیں۔  ابھی فرحان اس سے ملنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک دن چینی خریدتے ہوئے اس کی ملاقات اس تاجر سے ہوگئی۔ رسمی سلام دعا کے بعد فرحان نے اس سے کہا کہ آئیے چل کر چائے پیتے ہیں۔ لہٰذا وہ دونوں چائے پینے ہوٹل پر چلے گئے

انصاف

Image
پرانے وقتوں کی بات ہے۔ ایک گاؤں میں ایک غریب بیچاری عورت رہتی تھی۔ اس کا خاوند فوت ہو چکا تھا اور بدقسمتی سے اس کی کوئی اولاد بھی نہ تھی۔ اس کے گزر بسر کا واحد ذریعہ اس کی گائے تھی۔ وہ اس گائے کا آدھا دودھ بیچ دیتی اور  اس سے حاصل کردہ رقم سے گھر کی ضرورت کی اشیاء خرید لیتی اور باقی آدھے دودھ کو اُبال کر اس کی بالائی جمع کرکے گھی بنا لیتی اور دودھ خود استعمال کر لیتی۔ جب گھی جمع ہو جاتا تو وہ اپنے استعمال کے لئے رکھ کر باقی گھی فروخت کر دیتی۔ اس طرح اس کا گزارا چل جاتا۔ وہ عورت بہت ہی کفایت شعار تھی۔ ہر چیز حساب کتاب سے اور سوچ سمجھ کر استعمال کرتی۔ کبھی فضول خرچی نہ کرتی تھی۔  اسی عورت کے گھر کے سامنے والے گھر میں جو عورت رہتی تھی وہ بہت ہی پھوہڑ تھی۔ اس کا شوہر بھی بہت ہی فضول خرچ تھا۔ ان کے پاس سات ہٹی کٹی گائیں تھیں۔ مگر پھر بھی وہ عورت اس غریب عورت سے ادھار گھی لیا کرتی تھی کیونکہ اپنا دودھ تو  وہ ضائع کر دیتی تھی۔ پھوہڑ عورت ہر دوسرے دن اس عورت سے گھی لینے پہنچ جاتی تھی۔ غریب عورت مروت کے مارے اس کوگھی دے دیا کرتی تھی اور یہی سوچتی تھی کہ کیا پتا کبھی اس کو پھوہڑ عورت ک