محنت



حامد کے والد ایک مزدور تھے۔ جس دن ان کو مزدوری ملتی تھی اس دن ان کے گھر کا چولہا جلتا اور اگر کسی دن 
مزدوری نہ ملتی تو نوبت فاقوں تک آ جاتی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ حامد سکول سے واپس آیا تو اسے شدید بھوک لگی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ سے کھانا دیں تو والدہ نے جواب دیا کہ گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے اور کچھ خریدنے کیلئے پیسے بھی نہیں ہیں۔ حامد کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا۔ اس نے سوچا کہ یہ تو بہت غلط بات ہے۔ اس کو محنت کر کے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالنا چاہیے۔ یہی سوچ کر اس نے بازار کا رخ کیا اور وہاں سے ادھار برف لے کر ایک بالٹی میں ڈالی اور گلاس لے کر سینما کے سامنے پہنچ گیا۔ گرمی کی وجہ سے لوگوں کو پیاس لگی ہوئی تھی۔ اس نے وہاں پر دس روپے فی گلاس بیچا۔ واپسی پر برف کے پیسے ادا کیے اور باقی پیسوں سے کھانے کا سامان لے کر گھر آ گیا۔

 اب حامد کا یہی معمول تھا۔ وہ بازار سے برف لیتا شربت بنا کر وہ برف اس میں ڈال کر بیچا کرتا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ محنت بھی کرتا تھا۔ اسی طرح اس نے بی اے کر لیا اور اس کے بعد اسے ایک اچھی کمپنی میں نوکری مل گئی۔ حامد نے اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنی اور اپنے گھر والوں کی قسمت بدلی۔ محنت کرنے سے ہی انسان اپنے خواب پورے کرسکتا ہے۔ لہذا ہمیں بھی محنت کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیئے۔

Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت

معاف کرنا