دل میں میل




اجمل اور اکمل بھائی تھے۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد انہوں نے بہت جلد ہی کاروبار کے داؤ پیچ سیکھ لئے اور کاروبار کو ترقی کی بلندیوں تک لے گئے۔ دونوں میں بہت پیار اور اتفاق تھا۔ ہر کام ایک دوسرے کے مشورے سے کرتے، دفتر کے لوگوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ دفتر کے لوگ بھی ان دونوں سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔ ان کو دفتر میں ایک نئے ملازم کی بھرتی کرنی تھی۔ انہوں نے اشتہار دیا اور نوکری کے خواہشمند لوگوں میں سے چھانٹ کر چند لوگوں کو انٹرویو کیلئے بلایا۔ انٹرویو کے بعد ناصر نامی لڑکے کوبھرتی کر لیا۔ 

ناصر کو دفتر میں آئے چند دن ہی ہوئے تھے۔ وہ ان دونوں بھائیوں کی محبت اور اتفاق دیکھ کر حسد کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ان میں سے کسی ایک کی خوشامد کرکے ان کے قریب ہو جائے اور دفتر پر حکومت کرے۔ ایسا تب ہی ممکن تھا جب وہ ان دونوں کو الگ کرتا۔ لہذا اس نے منصوبہ بنایا کہ وہ پہلے محنت کرکے ان دونوں کا اعتماد حاصل کرے گا اور پھر ان دونوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرے گا اور ان کو الگ کر دے گا۔ وہ دل لگا کر کام کرنے لگ گیا۔ اجمل اوراکمل اس کے کام سے بہت خوش تھے۔ بہت جلد ہی ناصر دونوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اب اجمل اور اکمل آپس میں مشورہ کرنے کے بعد ناصر سے بھی رائے لیتے۔ ناصر کو لگا کہ اب وہ ان دونوں کے درمیان غلط فہمی ڈال سکتا ہے۔

ایک دن کھانے کے وقفے کے بعد ناصر اجمل کے پاس گیا اور بہت ہی رازدارانہ انداز میں کہنے لگا کہ وہ ان سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔ اجمل نے اجازت دے دی۔ ناصرکہنے لگا کہ آپ تو اکمل صاحب سے بہت محبت کرتے ہیں مگر اکمل صاحب آپ کے بارے میں برے خیالات رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سارے اختیارات آپ نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور خود کو اس دفتر کا مالک اور ان کو ملازم ہی سمجھتے ہیں۔ اجمل نے جواب میں ناصر کو تو کہہ دیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے اس کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس کو بہت دکھ ہوا مگر وہ خاموش ہو گیا۔ دوسری طرف ناصر نے اکمل کے پاس جا کر اس سے بھی ایسی باتیں کی کہ اجمل اس کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتا۔ کہتا ہے کہ وہ کام تو کوئی کرتا نہیں ہے بس ایسے ہی دفتر کا مالک بنا پھرتا ہے۔ اکمل نے بھی وہی جواب دیا جو اجمل نے دیا تھا اور اکمل کی حالت بھی اجمل کی حالت سے مختلف نہ تھی۔ دونوں کا رویہ ایک دوسرے کے ساتھ بدل گیا۔ دونوں نے اس بدلے ہوئے رویے کا ذکر ناصر سے کیا۔ ناصر کو مزید غلط فہمی پھیلانے کا موقع مل گیا۔ اس نے بدلے ہوئے رویہ کو غلط انداز دیا اور کہنے لگا کہ وہ تمہیں کسی خاطر میں نہیں لاتے اس لیے ان کا تمہارے ساتھ ایسا رویہ ہے۔ دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے میل آگیا۔ 




کچھ دنوں بعد بیرون ملک سے ایک وفد نے کاروباری سلسلے میں ملاقات کرنے آنا تھا۔ اجمل نے ان کا دن اور وقت طے کرکے ناصر کو کہا کہ وہ اکمل کو بھی آگاہ کر دے مگر ناصر نے اکمل کو نہ بتایا۔ جب وفد ملاقات کے لیے آیا تو اکمل کو اس بات پر غصہ آیا کہ اس کو کیوں نہیں بتایا گیا تو ناصر نے کہا کہ اجمل نے منع کیا تھا۔ وفد کے جانے کے بعد دونوں بھائیوں میں خوب بحث ہوئی۔ چونکہ دونوں میں محبت تھی اس لئے دونوں نے بدتمیزی اور مزید جھگڑے سے بچنے کے لیے کاروبار الگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں نے کاروبار اور رہائش الگ کر لی۔ سارے ملازم بہت حیران اور پریشان تھے کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ ناصر بہت خوش تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا ہے۔ ناصر نے اجمل کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں کے کاروبار میں دن بدن نقصان ہو رہا تھا۔ وہ دونوں بہت پریشان تھے۔ 

ایک دن اچانک ان کے والد صاحب کے دوست حامد انکل اکمل سے ملنے گئے۔ انہوں نے حالات دیکھے اور پوچھا کہ کاروبار الگ کیوں کیا تو اکمل نے ساری بات بتائی۔ حامد انکل بہت حیران ہوئے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ان دونوں میں تو بہت اتفاق تھا اور وہ اجمل کو بچپن سے جانتے ہیں۔ وہ تو کبھی بھی ایسی سوچ کا مالک نہ تھا۔ انہوں نے اجمل سے ملنے کا ارادہ کیا۔ اگلے دن وہ اجمل کے دفتر پہنچ گئے۔ وہاں جا کر اس سے بھی وہی سوال کیا اجمل نے بھی ساری بات بتائی کہ اکمل کے کس طرح کے خیالات ہیں۔ ساری بات سن کر حامد انکل کسی سوچ میں پڑ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد حامد انکل نے اجمل سے کہا کہ وہ کل تیار رہے کہیں کام سے جانا ہے۔ 

اگلے دن حامد انکل اجمل کو لے کر اکمل کے دفتر پہنچ گئے۔ دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر کہنے لگے کہ اب بتاؤ اجمل، اکمل تمہارے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ اجمل نے فوراً وہ ساری باتیں بتا دیں جو ناصر نے اس کو بتائی تھی۔ اکمل ساری باتیں سن کر حیران ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا۔ حامد انکل اکمل سے مخاطب ہوئے کہ تم بتاؤ اجمل تمہارے بارے میں کیسے خیالات رکھتا ہے۔ اکمل نے بھی وہ ساری باتیں بتا دیں جو ناصر نے اس کو بتائی تھیں۔ ساری باتیں سن کر اجمل کی بھی حالت اکمل جیسی ہوگی۔ اب حامد انکل نے دونوں سے پوچھا کہ ان کو یہ ساری باتیں کس نے بتائی تو دونوں نے ناصر کا نام لیا۔ وہ دونوں بات کی تہہ تک پہنچ چکے تھے۔ حامد انکل کہنے لگے کہ ناصر نے تم دونوں کے درمیان غلط فہمی پیدا کی تھی اور تم دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کردیا۔ غلطی اس میں تم دونوں کی ہی ہے کہ تم دونوں نے ایک دوسرے سے اس بارےمیں بات نہیں کی۔ ایک انجان شخص کی باتوں کا یقین کر لیا دونوں بہت پچھتائے اور شرمندہ ہوئے دونوں نے پھر سے ایک ساتھ کاروبار کر لیا اور اب انھوں نے یہ عہد کیا کہ کسی دوسرے کی باتوں پر بھروسا نہیں کریں گے۔ 

صحیح کہتے ہیں "غیروں کی باتوں میں آکر اپنوں کے لئے دل میں میل نہ لائیں"۔



Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت

خوداعتمادی