الفاظ کی طاقت



ایک زمانے میں کسی بادشاہ نے دوسرے بادشاہ کے ملک پر چڑھائی کر دی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ ہم جنگ پر جا رہےہیں فوراً شاہی دست شناس کو بلایا جائے کہ ایسی کون سی تدبیر ہو گی کہ ہم فاتح رہیں۔ جب بادشاہ کے ہرکارے شاہی دست شناس کے پاس پہنچے اور بادشاہ کا حکم سنایا تو دست شناس نے کہا کہ وہ کافی دنوں سے بیمار ہے اور دربار میں حاضر ہونے سے قاصر ہے مگر بادشاہ سلامت کا حکم بھی ٹالا نہیں جا سکتا۔ اس نے اپنے ہونہار شاگرد کو یہ کہہ کر بادشاہ کی طرف روانہ کیا کہ یہ میری طرح کا دست شناس ہے۔ میری اور اس کی باتوں میں ذرا بھر فرق نہ ہو گا۔ جب شاگرد بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا تو بادشاہ نے اس کے آنے کی وجہ پوچھی جب بادشاہ کو بتایا گیا کہ شاہی دست شناس بیمار ہے اور اس نے اپنے شاگرد کو بھیجا ہے تو بادشاہ نے حکم دیا کہ میرا ہاتھ دیکھو اور بتاؤ کہ جنگ کا کیا ہو گا؟
 شاگرد نے بادشاہ کا ہاتھ دیکھا اور بتانا شروع کر دیا کہ آپ کو اور آپ کی فوج کو بری طرح شکست ہو گی ان میں بہت سے لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور آپ جنگ میں پکڑے جائیں گے۔ آپ کو میدان جنگ میں بری طرح گھسیٹا جائے گا اور.... بادشاہ کا غصے سے برا حال ہوگیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کی آخری خواہش پوری کر کے اسے سولی پر لٹکا دو۔
اس کی آخری خواہش پوچھی گئی اس نے کہا کہ میری استاد محترم سے آخری ملاقات کروا دو۔ شاہی ہرکارے دوڈے گئے اور دست شناس کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔ استاد دست شناس کسی نہ کسی طرح شاہی دربار پہنچا اور بادشاہ سے ملاقات کی۔ بادشاہ نے غصے سے کہا کہ یہ کس نالائق کو ہمارے پاس بھیجا تھا؟ 
دست شناس نے ادب سے کہا کہ اسے چھوڑئیے لائیے میں آپ کا ہاتھ دیکھتا ہوں۔ اس نے بادشاہ کا ہاتھ پکڑا بہ غور دیکھا اور کہنے لگا کہ جنگ میں آپ بڑی جواں مردی سے بزدل دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ آپ کی فوج میں سے بہت سے بزدل اور غدار آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ انہیں ٹڈی دل اور بزدل دشمن سے سامنا کرنے کی جرات نہ ہو گی۔ دشمن آپ کے پیچھے سے وار کرے گا۔ جس سے آپ کی جان کو خطرہ ہو گا آپ بہادری اور جواں مردی سے دشمن کا مقابلہ کریں گے آخری دم تک ہتھیار نہیں پھینکیں گے۔ بہادری اور جرات مندی سے لڑنے کی وجہ سے آپ کا نام رہتی دنیا تک رہے گا.... اور مرنے کے بعد تو ہر کسی سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے آپ کا کمینہ دشمن آپ کی لاش مبارک کی بے حرمتی کرے گا اور گھوڑوں کے پیچھے باندھ کر آپ کی لاش کی بے حرمتی کی جاۓگی۔ لوگ آپ کی بہادری کی تعریف رہتی دنیا تک کریں گے کہ فلاں بادشاہ کتنا بہادر تھا۔
بادشاہ نجومی کے تعریفانہ جملوں سے خوش ہوا اس نے تالی بجائ اور حکم دیا کہ شاہی دست شناس کو ہیرے جواہرات سے مالامال کر دیا جائے اور دیناروں سے نوازا جائے۔
شاہی دست شناس نے سر جھکاتے ہوئے عرض کی کہ بادشاہ سلامت آپ کا اقبال بلند ہو۔ میرے پاس آپ کے بہت سے انعامات ہیں۔ آپ کے دیۓدیناروں کے ڈھیر ہیں۔ بس اتنی سی مہربانی کیجیۓ میرے نالائق شاگرد کو چھوڑ دیجئے۔ یہ مجھ ناچیز پر کرم ہو گا۔
بادشاہ نے حکم دیا کہ انعامات کے ساتھ اس کے شاگرد کو بھی رہا کر دیا جائے۔
شاہی دست شناس اور اس کا شاگرد جب دربار سے باہر نکلے تو شاگرد نے کہا کہ استاد محترم جو باتیں میں نے بتائیں وہی باتیں آپ نے بتائیں۔ مجھے سزا اور آپ کو جزا کیوں؟
دست شناس نے جواب دیا کہ باتیں ہماری دونوں کی ایک جیسی ہیں مگر طرزِ گفتگو الگ الگ ہے۔میرے ہر جملے سے بادشاہ خوش ہوتا گیا اور تمھارے ہر جملے سے بادشاہ کو غصہ آ تا گیا۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ اچھے الفاظ اور نرم لہجے میں بات کرنی چاہیے۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہماری بات تو صحیح ہوتی ہے مگر لہجہ اور الفاظ سخت ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سامنے والے کو غصہ آ جاتا ہے اور وہ ہماری بات پر غور اور عمل کرنے کے بجائے ہم سے لڑنا شروع کر دیتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

خوداعتمادی