Posts

سیر کو سوا سیر

Image
گزرے وقتوں کی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک کنجوس آدمی رہتا تھا۔ ایک بار وہ کسی کام سے دوسرے گاؤں جا رہا تھا۔ راستے میں اس کا گزر ایک جنگل سے ہوا۔ جب وہ جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے ایک کھجور کا درخت دیکھا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ یہاں سے مفت کھجور لے جا کر بازار میں بیچے تو اس کو کتنا منافع ہوگا۔ بس پھر کیا تھا اس کنجوس نے درخت پر چڑھنا شروع کر دیا۔ لالچ کی وجہ سے اس نے یہ غور ہی نہیں کیا کہ اس درخت پر تو شہد کی مکھیوں کا چھتا ہے۔ جب وہ اوپر چڑھ گیا اور اس چھتے تک جا پہنچا تو اس کو معلوم ہوا کہ یہاں تو شہد کی مکھیوں کا چھتا ہے۔ شہد کی مکھیوں کو بھی خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے اس کنجوس شخص پر حملہ کردیا۔ وہاں سے جان چھڑانا مشکل ہو گیا تو اس کنجوس آدمی کو اللہ کی یاد آئی اور اس نے اللہ سے مدد طلب کی۔ اس کنجوس نے یہ دعا کی کہ اللہ تعالی اس کو اس مصیبت سے نجات دلائیں تو وہ سو غریبوں کو کھانا کھلائے گا۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے درخت سے نیچے اترنے کی کوشش شروع کی۔ جب وہ ذرا سا نیچے ہوا تو اس نے کہا کہ وہ پچھتر لوگوں کو کھانا کھلائے گا۔ جب وہ مزید نیچے ہوا تو اس نے کہا کہ وہ پچیس لوگوں کو کھانا ک

سستی

Image
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چوہا تھا۔ وہ ایک گھر میں بل میں رہتا تھا۔ اس گھر کے لوگ جو اشیاء استعمال کرکے پھینکتے تھے ان چیزوں کو کھا کر وہ چوہا اپنا گزر بسر کرتا تھا۔ اچانک ہی ان لوگوں کو وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد وہ گھر خالی ہو گیا۔ کچھ دنوں تک تو ان کی بچی کھچی چیزوں سے چوہے نے اپنا پیٹ بھرا، مگر وہ چیزیں کتنے دن چلتیں۔ آخرکار وہ چیزیں ختم ہوگئیں اور چوہے پر فاقوں کی نوبت آگئی۔ چوہے نے سوچا کہ اب اس جگہ سے کہیں اور چلا جائے تاکہ کھانے کو تو کچھ ملے۔ چوہے نے اپنا ضروری سامان ساتھ لیا اور نئے ٹھکانے کی تلاش میں نکل پڑا۔  اس کا گزر ایک دکان سے ہوا۔ اس دکان میں کھانے پینے کی تمام اشیاء موجود تھیں۔ چوہا چونکہ کافی دنوں سے بھوکا تھا، اس لیے وہ اس دکان میں جا گھسا اور دکان کے مالک سے چھپ کر چیزیں کھانے لگا۔ جب اس نے پیٹ بھر کر کھا لیا تو ایک آٹے کی بوری کے ساتھ ٹیک لگا کر آرام کرنے لگ گیا۔ چوہے نے سوچا کہ یہ جگہ تو بہت اچھی ہے، کھانے کو بھی بہت کچھ ہے اس لیے اس نے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اب چوہا روزانہ پیٹ بھر کر کھاتا اور وہیں پڑا رہتا۔ زیادہ ک

محنت

Image
حامد کے والد ایک مزدور تھے۔ جس دن ان کو مزدوری ملتی تھی اس دن ان کے گھر کا چولہا جلتا اور اگر کسی دن  مزدوری نہ ملتی تو نوبت فاقوں تک آ جاتی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ حامد سکول سے واپس آیا تو اسے شدید بھوک لگی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ سے کھانا دیں تو والدہ نے جواب دیا کہ گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے اور کچھ خریدنے کیلئے پیسے بھی نہیں ہیں۔ حامد کو یہ سن کر بہت دکھ ہوا۔ اس نے سوچا کہ یہ تو بہت غلط بات ہے۔ اس کو محنت کر کے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالنا چاہیے۔ یہی سوچ کر اس نے بازار کا رخ کیا اور وہاں سے ادھار برف لے کر ایک بالٹی میں ڈالی اور گلاس لے کر سینما کے سامنے پہنچ گیا۔ گرمی کی وجہ سے لوگوں کو پیاس لگی ہوئی تھی۔ اس نے وہاں پر دس روپے فی گلاس بیچا۔ واپسی پر برف کے پیسے ادا کیے اور باقی پیسوں سے کھانے کا سامان لے کر گھر آ گیا۔  اب حامد کا یہی معمول تھا۔ وہ بازار سے برف لیتا شربت بنا کر وہ برف اس میں ڈال کر بیچا کرتا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ محنت بھی کرتا تھا۔ اسی طرح اس نے بی اے کر لیا اور اس کے بعد اسے ایک اچھی کمپنی میں نوکری مل گئی۔ حامد نے ا

حسد

Image
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اڑنے والے کیڑوں نے آپس میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دراصل ہوا کچھ یوں کہ بھونرا(لیڈی برڈ), مکھی، شہد کی مکھی، تنبوڑی، اور ٹڈی دل (ڈریگن فلائی) باتیں کر رہے تھے۔ سب کا یہی خیال تھا کہ وہی سب سے زیادہ تیز اڑتا ہے۔ باتوں باتوں میں بحث چھڑ گئی۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ اگلے دن سب اسی جگہ جمع ہوں گے اور کٹی چٹان تک جو سب سے پہلے پہنچا، وہی سب سے تیز اڑتا ہے۔ سب نے حامی بھر لی۔  اگلے دن مقررہ وقت پر سب وہاں جمع ہوگئے۔ چیونٹی کو منصف کے فرائض ادا کرنے کے لیے بلایا۔ جب سب  لائن میں کھڑے ہوکر چیونٹی کے اشارے کا انتظار کر رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک گھونگا (سنیل) بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ وہ سب اس گھونگے کا مذاق اڑانے لگ گئے کہ یہ ہم سے مقابلہ کرنے آیا ہے۔ تیزی کا مقابلہ ہورہا ہے، کوئی سست رفتاری کا مقابلہ نہیں ہے۔ سب کے رویوں اور باتوں سے گھمنڈ اور غرور صاف ظاہر تھا۔ خیر چیونٹی نے اشارہ کیا اور سب کٹی چٹان کی جانب تیز رفتاری سے اڑ پڑے۔ سب کیڑے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں تھے۔ دوسری طرف گھونگا آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ سست ہونے کی و

طاقت

Image
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چڑیا سارا دن دانے کی تلاش میں اڑتی پھرتی رہی مگر اس کو کہیں بھی دانہ نہ ملا۔ بھوک سے نڈھال چڑیا نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور تلاش جاری رکھی۔ کہیں پر شکاری نے دانہ ڈال کر جال بچھا رکھا تھا کہ کوئی بیچاری بھوکی چڑیا دانوں کی لالچ میں جال میں پھنس جائے۔ اس چڑیا نے جال میں پھنسنے سے بھوکا رہنا مناسب سمجھا۔ جیسے جیسے شام ہو رہی تھی اس چڑیا کے ہمت جواب دیتی جا رہی تھی۔ آخر ایک جگہ پر اس نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی لڑکی مرغیوں کو دانہ ڈال رہی ہے۔ اس چڑیا نے سوچا کہ وہ بھی ان مرغیوں کے ساتھ دانہ کھا لے۔ یہی سوچ کر وہ اس جگہ جاکر بیٹھ گئی۔ ابھی وہ دانوں کے قریب جانے ہی لگی تھی کہ ایک مرغی نے اس کو غصے سے گھورا جیسے کہہ رہی ہو کہ یہ اس کے دانے ہیں۔ اس مرغی کی غصیلی نگاہوں سے چڑیا سہم سی گئی۔ وہ مرغی سے بچنے کے لیے دوسری طرف ہوئی تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک خونخوار قسم کا کتا رال ٹپکائے اس کی جانب چلا آرہا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی فرار کا راستہ اپناتی وہ کتا اس پر جھپٹ پڑا۔ بہت مشکل سے جان بچا کر وہ چڑیا ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی میں جا بیٹھی اور جان بچ جانے پر شکر ادا کرنے لگی۔

رحمدل

Image
پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک بادشاہ تھا۔ اس بادشاہ کا ایک خاص وزیر تھا، جو بہت ہی نیک اور رحمدل تھا۔ اس نے کبھی بھی اپنے بادشاہ کو کوئی غلط مشورہ نہ دیا۔ ہمیشہ عوام اور قوم کی بھلائی کی ہی تجویز دی۔ اسی وجہ سے وہ وزیر بادشاہ کو بہت عزیز تھا۔  ایک بار ایسا ہوا کہ شکار کھیلتے ہوئے اس وزیر کی نظر ایک ہرن پر پڑی، جو بھاگ کر اس کے سامنے سے گزرا تھا۔ اس وزیر نے ہرن کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے گھوڑا دوڑا دیا۔ کچھ دور بھاگنے کے بعد پھرتی سے اس وزیر نے وہ ہرن پکڑ لیا۔ پکڑنے پر معلوم ہوا کہ وہ ہرن ابھی بچہ ہے۔ خیر وہ وزیر اس ہرن کے بچے کو اٹھا کر گھوڑے پر سوار ہو کر واپس چل پڑا۔ کافی دور چلنے کے بعد اس وزیر کو محسوس ہوا کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ جب اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک ہرنی اس کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس ہرنی کی آنکھوں میں آنسو ہوں۔ وہ اس ہرن کی ماں تھی۔ گویا وہ کہہ رہی ہو کہ اس سے اس کی اولاد کو مت چھینو۔ اس ہرن کی آنکھوں میں بھی درد اور تکلیف نمایاں تھی۔ اس ہرنی کی آنکھوں میں التجا صاف نظر آرہی تھی۔ اس رحمدل وزیر کو ترس آگیا۔ اس نے گھوڑے سے اتر کر

سزا

Image
ہادی بہت ہی شرارتی بچہ تھا۔ سارے گاؤں والے اس کی شرارتوں سے پریشان تھے۔ اس کو دوسروں کو تنگ اور پریشان کرکے خوشی ہوتی تھی۔ اس کی امی اس کو بہت سمجھاتی تھیں۔ مگر اس پر کسی بات کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ انسان تو انسان وہ جانوروں کو بھی تنگ کرتا تھا۔ بلاوجہ جانوروں کو پتھر مارتا تھا، ان کی دم کھینچتا تھا۔ غرض یہ کہ ہر طرح سے اس نے سب کو تنگ کیا ہوا تھا۔  ایک دن وہ حسب معمول باہر کھیلنے گیا تو اس نے ایک بلی دیکھی۔ جو دیوار پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ اس بلی کو تنگ کرنے کی غرض سے اینٹیں جمع کرکے اس بلی تک پہنچنا چاہتا تھا۔ جیسے ہی وہ بلی کے قریب پہنچا بلی وہاں سے بھاگ گئی۔ ہادی اس کو تنگ کرنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگا۔ وہ بلی بھاگتے بھاگتے بہت دور نکل گئی۔ ہادی بھی اس بلی کے پیچھے تھا۔ اچانک وہ بلی کسی گھر میں گھس گئی۔ اب ہادی اس بلی کے پیچھے نہیں جا سکتا تھا۔ اس لئے وہیں رُک گیا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اب وہ آگے کیا کرے تو اس کی نظر اسی گھر کی دیوار پر پڑی۔ وہی بلی جو اس گھر میں گھسی تھی۔ وہ اب اس دیوار پر براجمان تھی۔ ہادی اس کو تنگ کرنے کے لئے آگے بڑھا اور جھٹ سے اس کی دم پکڑ لی۔ وہ