سستی



ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چوہا تھا۔ وہ ایک گھر میں بل میں رہتا تھا۔ اس گھر کے لوگ جو اشیاء استعمال کرکے پھینکتے تھے ان چیزوں کو کھا کر وہ چوہا اپنا گزر بسر کرتا تھا۔ اچانک ہی ان لوگوں کو وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد وہ گھر خالی ہو گیا۔ کچھ دنوں تک تو ان کی بچی کھچی چیزوں سے چوہے نے اپنا پیٹ بھرا، مگر وہ چیزیں کتنے دن چلتیں۔ آخرکار وہ چیزیں ختم ہوگئیں اور چوہے پر فاقوں کی نوبت آگئی۔ چوہے نے سوچا کہ اب اس جگہ سے کہیں اور چلا جائے تاکہ کھانے کو تو کچھ ملے۔ چوہے نے اپنا ضروری سامان ساتھ لیا اور نئے ٹھکانے کی تلاش میں نکل پڑا۔ 
اس کا گزر ایک دکان سے ہوا۔ اس دکان میں کھانے پینے کی تمام اشیاء موجود تھیں۔ چوہا چونکہ کافی دنوں سے بھوکا تھا، اس لیے وہ اس دکان میں جا گھسا اور دکان کے مالک سے چھپ کر چیزیں کھانے لگا۔ جب اس نے پیٹ بھر کر کھا لیا تو ایک آٹے کی بوری کے ساتھ ٹیک لگا کر آرام کرنے لگ گیا۔ چوہے نے سوچا کہ یہ جگہ تو بہت اچھی ہے، کھانے کو بھی بہت کچھ ہے اس لیے اس نے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اب چوہا روزانہ پیٹ بھر کر کھاتا اور وہیں پڑا رہتا۔ زیادہ کھانے اور حرکت نہ کرنے کی وجہ سے وہ موٹا اور سست ہو گیا تھا۔
 ایک دن حسب معمول چوہا اپنی پسند کی اشیاء کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا کہ کہیں سے ایک بلی ٹہلتی ہوئی وہاں آ گئی۔ جیسے ہی اس بلی کی نظر چوہے پر پڑی وہ اس کا شکار کرنے اس کی طرف لپکی۔ چوہا وہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچانا چاہتا تھا، مگر موٹاپے اور سستی کی وجہ سے وہ بھاگ نہ سکا۔ بلی نے جھپٹ کر اس چوہے کو قابو کر لیا اور چوہے کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ سستی کی قیمت چوہے نے اپنی جان گنوا کر ادا کی۔

Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت

معاف کرنا