سیر کو سوا سیر



گزرے وقتوں کی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک کنجوس آدمی رہتا تھا۔ ایک بار وہ کسی کام سے دوسرے گاؤں جا رہا تھا۔ راستے میں اس کا گزر ایک جنگل سے ہوا۔ جب وہ جنگل سے گزر رہا تھا تو اس نے ایک کھجور کا درخت دیکھا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ یہاں سے مفت کھجور لے جا کر بازار میں بیچے تو اس کو کتنا منافع ہوگا۔ بس پھر کیا تھا اس کنجوس نے درخت پر چڑھنا شروع کر دیا۔ لالچ کی وجہ سے اس نے یہ غور ہی نہیں کیا کہ اس درخت پر تو شہد کی مکھیوں کا چھتا ہے۔ جب وہ اوپر چڑھ گیا اور اس چھتے تک جا پہنچا تو اس کو معلوم ہوا کہ یہاں تو شہد کی مکھیوں کا چھتا ہے۔ شہد کی مکھیوں کو بھی خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے اس کنجوس شخص پر حملہ کردیا۔ وہاں سے جان چھڑانا مشکل ہو گیا تو اس کنجوس آدمی کو اللہ کی یاد آئی اور اس نے اللہ سے مدد طلب کی۔ اس کنجوس نے یہ دعا کی کہ اللہ تعالی اس کو اس مصیبت سے نجات دلائیں تو وہ سو غریبوں کو کھانا کھلائے گا۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے درخت سے نیچے اترنے کی کوشش شروع کی۔ جب وہ ذرا سا نیچے ہوا تو اس نے کہا کہ وہ پچھتر لوگوں کو کھانا کھلائے گا۔ جب وہ مزید نیچے ہوا تو اس نے کہا کہ وہ پچیس لوگوں کو کھانا کھلائے گا۔ آخر کار جب وہ درخت سے اتر آیا تو اس نے سوچا کہ ایک ہی آدمی کو کھانا کھلا دیتا ہوں۔ یہی کافی ہے۔ واپس گھر آ کر اس نے سارا واقعہ اپنی بیوی کو سنا دیا۔ اگلے دن اس کی بیوی نے ایک ایسا فقیر تلاش کیا جو کہ بیمار ہو اور زیادہ کھانا نہ کھا سکتا ہو۔ وہ فقیر بھی بہت لالچی تھا۔ اس نے کنجوس آدمی کی بیوی سے چار لوگوں کے حساب سے کھانے کی اشیاء لیں اور نذرانے کے طور پر ایک سونے کا سکہ بھی مانگا۔ اس عورت نے وہ اشیاء اس فقیر کو دیں اور وہ اپنے گھر کو چل دیا۔ جب وہ کنجوس آدمی گھر آیا تو اس کی بیوی نے اس کو سارا واقعہ بتایا۔ کنجوس آدمی کو بہت غصہ آیا اور وہ جھگڑا کرنے اس فقیر کے گھر کی طرف چل پڑا۔ اس لالچی فقیر کی بیوی نے جب کنجوس آدمی کو اپنے گھر کی طرف آتے دیکھا تو باہر دروازے پر شور کرنے پہنچ گئی کہ  کسی نے اس کے شوہر کو زہریلا کھانا کھلا دیا ہے اور اب اس کی طبیعت خراب ہے پتہ نہیں وہ بچتا بھی ہے کہ نہیں۔ یہ سن کر وہ کنجوس آدمی گھبرا گیا اور جا کر اس فقیر کی بیوی سے کہنے لگا کے وہ فکر نہ کرے۔ اس کے شوہر کے علاج کے لیے دو سونے کے سکے وہ بھی لاکر اس کو دیتا ہے۔ اس طرح اس فقیر نے کنجوس آدمی سےکافی اشیاء بٹور لیں۔

Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت

معاف کرنا