احساس



نعمان اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ پڑھائی میں لائق اور ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کا بے حد فرمابردار بھی تھا۔ وہ ابھی سکول میں تھا مگر اس کی شخصیت میں تحمل اور سمجھداری موجود تھے۔ وہ اپنے والدین کی خدمت کو عبادت کا درجہ دیتا تھا۔ مگر کچھ دنوں سے نہ جانے اس کو کیا ہوگیا تھا۔ وہ اپنے والدین سے بہت بد تمیزی کرنے لگا تھا اور ان کی بات سن کر بھی ان سنی کر دیتا تھا۔ اس کے والدین اس کے بدلے ہوئے رویے سے حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی تھے۔ کئی بار اس کی والدہ نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر نعمان نے ان کی کسی بھی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی والدہ بہت غمگین ہوگئیں۔ نعمان کے والد نے انہیں حوصلہ دیا اور سمجھایا کہ وہ خود نعمان سے بات کریں گے۔

اگلے دن نعمان کے والد نے اس سے بات کی تو بھی نعمان کے وہی تیور تھے۔ اس نے اپنے والد کی بھی کسی بات کا جواب نہ دیا بلکہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ نعمان کے والد بھی اس کی اس حرکت سے افسردہ ہو گئے۔ انہیں اپنا بچپن یاد آنے لگا کہ جب وہ بھی اپنے والد کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے تھے۔ ان کے والد محنت کر کے روزی کماتے اور وہ اپنی ناجائز خواہشات کرکے ان کو دکھی کر دیتے تھے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ ان کی ہر خواہش پوری کرسکیں۔

 نعمان نے اپنے والدین کے ساتھ کھانا کھانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ الگ اپنا کھانا کمرے میں کھاتا تھا۔ اس کے والدین اس کی طرف سے بہت پریشان اور دکھی تھے کہ اچانک اس کو کیا ہوگیا ہے۔ اگر اس کو کوئی پریشانی یا مسئلہ درپیش ہے تو وہ ان کو بتاتا کیوں نہیں ہے۔ اگر کسی بات پر ناراض ہے تو وہ بات بتائے،کوئی چیز چاہیئے تو بھی وہ بتائے تو سہی۔ سب سے زیادہ پریشانی کی بات نعمان کی خاموشی تھی۔

 ایک دن نعمان کے والد دفتر سے جلدی گھر آگئے۔ دوپہر کے کھانے پر نعمان کو بھی بلایا گیا مگر اس نے حسب معمول باہر آنے سے انکار کر دیا اور اپنا کھانا کمرے میں ہی منگوا لیا۔ اس کے والدین جو کہ ان حالات سے بہت پریشان تھے، انہوں نے سوچا کہ آج جاکر نعمان سے پوچھ ہی لیتے ہیں کہ آخر بات کیا ہے۔ لہذا وہ دونوں ان کے کمرے میں جا پہنچے۔ انہوں نے نعمان سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ وہ نہ تو کسی سے کوئی بات کرتا ہے نہ سب کے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟ نعمان نے غصے بھری نظر اپنے والدین پر ڈالی اور اپنے والد سے پوچھا کہ اس کے دادا ابو کہاں ہیں؟ نعمان کے والدین نے ایک نظر ایک دوسرے پر ڈالی۔ وہ دونوں حیران تھے کہ اچانک نعمان کو اس کے دادا ابو کیسے یاد آ گئے؟ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے نعمان بولا کہ آپ لوگوں نے اس سے جھوٹ کیوں بولا کہ اس کے دادا ابو وفات پا چکے ہیں جب کہ وہ زندہ ہیں۔ ان کو اولڈ ہوم میں کیوں رکھا ہوا ہے جبکہ یہ گھر موجود ہے۔ اس کے والدین بہت شرمندہ ہوئے مگر اپنی شرمندگی اور غلطی چھپانے کے لیے اس کے والد بولے کہ اس کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ نعمان نے کہا کہ اس کو کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ ایک ہفتہ پہلے اس کے سکول والے ان کی جماعت کو لے کر ایک اولڈ ہوم گئے تھے۔ وہاں نعمان نے ایک شخص کو دیکھا جو کہ ایک تصویر میں اس کے والد کے ساتھ کھڑے تھے اور نعمان کے پوچھنے پر اس کے والد نے ہی بتایا تھا کہ وہ اس کے دادا جان ہیں۔ نعمان نے اولڈ ہوم کے نگران سے بھی پوری تفصیلات لیں ہیں۔

نعمان کے پاس سارے ثبوت تھے۔ اس کے والدین کی غلطی ان کے سامنے آگئی تھی۔ وہ بہت شرمندہ تھے نعمان کے چہرے پر غم اور غصہ دونوں 
صاف ظاہر تھے۔ اس کے والدین نے اس سے معافی مانگی اور کہا کہ وہ انہیں معاف کر دے اور ان کے ساتھ اپنا رویہ ٹھیک کر لے۔ نعمان کہنے لگا کہ جس درد اور تکلیف سے آج وہ گزر رہے ہیں اسی تکلیف سے کبھی اس کے دادا ابو بھی گزرتے ہوں گے۔ نعمان نے اپنا رویہ ٹھیک کرنے کی یہ شرط رکھی کہ اس کے دادا ابو کو اس گھر میں لایا جائے اور ان سے معافی مانگی جائے۔ نعمان کے والدین نے اس کی یہ شرط مان لی اور نعمان کے دادا ابو کو اولڈ ہوم سے اپنے گھر لے آئے۔ اولاد چاہے جتنی بھی بدتمیزی اور بدسلوکی کرے والدین صرف ایک بار معافی مانگنے پر معاف کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی نعمان کے دادا نے بھی کیا۔ پھر وہ سب پیار محبت سے ایک ہی گھر میں رہنے لگے۔




Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت

معاف کرنا