صحبت




والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے ان کی ساری امیدیں ارسلان سے ہی وابستہ تھیں۔ ارسلان بھی اپنے والدین کی تمام امیدوں پر پورا کرنے کی بھرپورکوشش کرتا تھا۔ وہ بہت ہی لائق، تابعدار اور شریف لڑکا تھا۔ میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کرنے کے بعد اس نے شہر کے سب سے اچھے کالج میں داخلہ لیا۔ کالج کے پہلے ہی دن ارسلان کی دوستی حسن اور احمد سے ہوگئی۔ وہ دونوں ارسلان سے کافی مختلف تھے۔ اساتذہ سے بدتمیزی، رات دیر تک  گھومنا پھرنا اور پڑھائی پر دھیان نہ دینا ان کے لئے معمولی باتیں تھیں۔ ارسلان بھی ان کے ساتھ رہ کر ان کے جیسا ہونے لگ گیا تھا۔ اس کے والدین نے بھی اس کی عادات اور رویے میں تبدیلی محسوس کی۔ وہ آئے دن کالج سے چھٹی کر لیتا۔ کبھی کبھی تو رات کو کافی دیر سے گھر واپس آتا۔ جب اس کے والدین دیر سے آنے کی وجہ پوچھتے تو ارسلان غصہ ہو جاتا۔ پہلے تو ارسلان اپنے والدین سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرتا تھا اور اب وہ ان سے بدتمیزی کرنے لگا تھا۔ رات کو دیر سے آنا اس کا معمول بن چکا تھا۔ پڑھائی میں بھی اب اس کا دل نہیں لگتا تھا۔ کالج سے بھی اس کی شکایات آنے لگ گئیں۔ اس کے والدین بہت پریشان تھے۔

ایک دن حسن کو اردو کے استاد امجد صاحب نے نقل کرنے کی وجہ سے ڈانٹا۔ حسن، جو کہ استاد کی ڈانٹ سننے کا عادی نہ تھا، اس کو بےعزتی محسوس ہوئی۔ حسن نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر امجد سر سے بدلہ لینے کا منصوبہ بنایا۔ انہوں نے سوچا کہ امجد سر کی گاڑی کا ٹائر پنکچر کر دیں گے۔ بریک میں انھوں نے اپنے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔ چھٹی کے وقت عبادت ہے نے اپنی گاڑی دیکھی تو چوکیدار سے پوچھا۔ چوکیدار نے بتایا کہ اس نے گاڑی کے پاس ارسلان، حسن اور احمد کو ہی دیکھا تھا۔ امجد سر نے پرنسپل صاحب سے کہہ کر سی سی ٹی وی کیمرے کی ریکارڈنگ نکلوائی۔ جس میں یہ تینوں ٹائر پنکچر کرتے نظر آ رہے تھے۔ پرنسپل نے فورا تینوں کے والدین کو فون کیا اور ملنے کے لیے بلایا۔ پرنسپل نے ان تینوں کو کالج سے نکالنے کا نوٹس جاری کیا۔ ارسلان کے والد نے پرنسپل سے درخواست کی کہ اس کو ایک اور موقع دیں جبکہ حسن اور احمد کے والدین نے اپنے بچوں کی غلطی ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ خود اپنے بچوں کو اب اس کالج میں نہیں بھیجیں گے۔ ارسلان کی شرمندگی اور اس کے والد کی درخواست کی وجہ سے اس کو پرنسپل نے ایک اور موقع دیا۔ 

ان دوستوں سے دور ہوکر ارسلان کے رویے میں تبدیلی آگئی۔ وہ پہلے جیسا ہونے لگ گیا۔ اس کو احساس ہوا کہ وہ غلط دوستوں کی صحبت میں پڑ گیا تھا۔ اس نے اپنے والدین سے اپنے رویے کی معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ آئندہ برے دوستوں کی صحبت سے دور رہے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت

خوداعتمادی