منافع



فرحان ایک تاجر تھا۔ وہ چینی اور نمک کا کاروبار کرتا تھا۔ باقی تاجروں کی طرح وہ بھی ان پر اپنا منافع رکھ کر ان کو فروخت کرتا تھا۔ اس منافع سے وہ اپنے گھر کے اخراجات پورے کرتا تھا۔ جہاں سے وہ چینی لیتا تھا وہاں سے اور بھی بہت سے تاجر چینی لیتے تھے۔ ان تاجروں میں سے ایک تاجر ایسا بھی تھا جو جس قیمت پر چینی خریدتا تھا اسی قیمت پر فروخت کردیتا تھا۔ جب فرحان کو یہ بات پتا لگی تو وہ بہت حیران ہوا۔ اس کو پہلے تو اس بات پر یقین ہی نہیں ہوا مگر جب دو چار لوگوں سے اس بات کی تصدیق ہوئی تو اس کو وہ شخص دماغی طور پر تھوڑا کھسکا ہوا لگا۔  فرحان نے سوچا کہ وہ شخص اگر منافع نہیں رکھتا تو اپنے اخرجات کہاں سے پورے کرتا ہے۔ فرحان نے دل میں طے کیا کہ وہ اس شخص سے ضرور ملے گا اور اس سے پوچھے گا کہ اگر منافع نہیں رکھتا تو اخرجات کیسے پورے کرتا ہے۔ لہذا فرحان نے اس تاجر کے بارے میں معلومات لیں۔

 ابھی فرحان اس سے ملنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ ایک دن چینی خریدتے ہوئے اس کی ملاقات اس تاجر سے ہوگئی۔ رسمی سلام دعا کے بعد فرحان نے اس سے کہا کہ آئیے چل کر چائے پیتے ہیں۔ لہٰذا وہ دونوں چائے پینے ہوٹل پر چلے گئے۔ وہاں پر باتوں ہی باتوں میں فرحان نے اس سے پوچھا کہ اس نے سنا ہے کہ وہ جس قیمت پر چینی خریدتا ہے اسی قیمت پر فروخت کردیتا ہے تو اس کو فائدہ کہاں سے ہوتا ہےاس نے کہا "میں جب خریدتا ہوں تو بوری سمیت خریدتا ہوں اور جب فروخت کرتا ہوں تو بوری کے بغیر فروخت کرتا ہوں۔ چینی میں اپنی قیمت پہ فروخت کرتا ہوں لیکن نفع میں مجھے خالی بوری بچ جاتی ہے۔ تو دس ہزار بوری روزانہ بھیجتا ہوں۔ ایک بوری دس روپے کی بک جاتی ھے ۔ یوں دس ہزار بوریوں کے بدلے مجھے ایک لاکھ روپے کا فائدہ ہوجاتا ہے۔ لہذا مجھے ضرورت ہی نہیں مخلوق خدا سے زیادہ پیسہ لینے کی۔ میں ان سے نرمی کررہا ہوں اللہ مجھ پہ نرمی کررہا ہے۔"

 اس کی بات سن کر فرحان کو لگا کہ وہ تو صرف دنیا کا فائدہ اور منافع اٹھا رہا ہے مگر وہ تاجر تو آخرت کا بھی فائدہ اور منافع جمع کر رہا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت

خوداعتمادی