انصاف




پرانے وقتوں کی بات ہے۔ ایک گاؤں میں ایک غریب بیچاری عورت رہتی تھی۔ اس کا خاوند فوت ہو چکا تھا اور بدقسمتی سے اس کی کوئی اولاد بھی نہ تھی۔ اس کے گزر بسر کا واحد ذریعہ اس کی گائے تھی۔ وہ اس گائے کا آدھا دودھ بیچ دیتی اور  اس سے حاصل کردہ رقم سے گھر کی ضرورت کی اشیاء خرید لیتی اور باقی آدھے دودھ کو اُبال کر اس کی بالائی جمع کرکے گھی بنا لیتی اور دودھ خود استعمال کر لیتی۔ جب گھی جمع ہو جاتا تو وہ اپنے استعمال کے لئے رکھ کر باقی گھی فروخت کر دیتی۔ اس طرح اس کا گزارا چل جاتا۔ وہ عورت بہت ہی کفایت شعار تھی۔ ہر چیز حساب کتاب سے اور سوچ سمجھ کر استعمال کرتی۔ کبھی فضول خرچی نہ کرتی تھی۔ 

اسی عورت کے گھر کے سامنے والے گھر میں جو عورت رہتی تھی وہ بہت ہی پھوہڑ تھی۔ اس کا شوہر بھی بہت ہی فضول خرچ تھا۔ ان کے پاس سات ہٹی کٹی گائیں تھیں۔ مگر پھر بھی وہ عورت اس غریب عورت سے ادھار گھی لیا کرتی تھی کیونکہ اپنا دودھ تو  وہ ضائع کر دیتی تھی۔ پھوہڑ عورت ہر دوسرے دن اس عورت سے گھی لینے پہنچ جاتی تھی۔ غریب عورت مروت کے مارے اس کوگھی دے دیا کرتی تھی اور یہی سوچتی تھی کہ کیا پتا کبھی اس کو پھوہڑ عورت کو شرم آ جائے اور وہ اس گھی کے پیسے ادا کردے یا کیا  خبر وہ گھی ہی واپس کر دے۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ 

ایک روز وہ غریب عورت تنگ آ کر بولی کہ اب اس گھی کے پیسے ادا کرے جو ابھی تک وہ لے چکی ہے یا پھر اسی مقدار میں گھی واپس کرے۔ یہ بات سن کر وہ پھوہڑ عورت غصے میں آگئی اور صاف مکر گئی کہ اس نے کبھی اس عورت سے گھی لیا ہی نہیں۔ کافی بحث کرنے کے بعد وہ عورت اپنے گھر واپس چلی گئی۔ غریب عورت نے ایک دو دن انتظار کیا کہ شاید وہ عورت گھی یا پیسے دے مگر اس نے ایسا نہ کیا۔

آخرکار وہ غریب عورت انصاف لینے قاضی کے پاس پہنچ گئی۔ قاضی نے اس کی بات سننے کے بعد اس پھوہڑ عورت کو بھی عدالت میں طلب کیا۔ وہ امیر عورت جب عدالت میں پیش ہوئی اور قاضی نے اسے بتایا کہ اس پر کیا الزام ہے تو وہ عورت صاف مکر گئی کہ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔وہ عورت جھوٹ بول رہی ہے۔ آپ خود سوچیں کہ اس عورت کے پاس صرف ایک گائے ہے مگر امیر عورت کے پاس سات  گائیں ہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ وہ غریب عورت سے کچھ ادھار لے۔ قاضی نے اس غریب عورت سے کہا کہ کیا اس کے پاس کوئی گواہ موجود ہے مگر اس غریب کے پاس کہاں سے گواہ آیا۔ قاضی صاحب نے ان دونوں کو کل پھر عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

دوسرے دن جب وہ دونوں عدالت پہنچیں تو دیکھا کہ صحن میں ہر طرف کیچڑ ہے۔ چوکیدار نے ان دونوں عورتوں سے کہا کہ وہ جوتے اتارکر ہاتھ میں کرلیں اور کیچڑ میں سے گزر جائیں۔ ان دونوں نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ دونوں کیچڑ سے گزر کر اندر پہنچیں تو قاضی صاحب نے ایک آدمی سے کہا کہ وہ ان دونوں کو ایک ایک لوٹا پانی کالا کردے جس سے وہ دونوں اپنے پاؤں دھو لیں۔ اس آدمی نے ایسا ہی کیا۔ غریب عورت چونکہ کفایت شعار تھی۔ اس لئے اس نے ایک ہی لوٹے سے اپنے دونوں پاؤں دھو لیئے بلکہ اس کے بعد بھی لوٹے میں کچھ پانی بچ گیا۔ جبکہ اس امیر اور پھوہڑ عورت نے اس ایک لوٹے پانی سے ایک ہی پاؤں بمشکل دھو یا دوسرا پاؤں دھونے کے لیے اس نے مزید پانی مانگا۔ اس کو مزید پانی دیا گیا۔ جب وہ دونوں اپنے پاؤں دھو چکیں تو قاضی صاحب نے فیصلہ سنایا کہ  غریب عورت سچی ہے کیونکہ امیر عورت بہت ہی فضول خرچ ہے۔ ایسا بالکل ممکن ہے کہ وہ اپنی سات گائیں ہونے کے باوجود بھی اس غریب عورت سے ادھار گھی لیتی ہو۔ لہذا قاضی صاحب کے حکم کے مطابق اس امیر عورت نے جتنا گھی اس غریب عورت سے لیا تھا اس کی قیمت ادا کی۔




Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت

خوداعتمادی