کڑوی روٹی



ایک بار کام کے سلسلے میں مجھے قبائلی علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرا وہاں ایک ہفتے کا قیام تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ وہ لوگ جب روٹی بناتے ہیں تو پہلی روٹی کو کڑوی روٹی کہتے ہیں۔ مجھے یہ پتہ لگا تو میں بہت حیران ہوا۔ میں نے وہاں کے ایک مقامی آدمی سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرہ ہے تو اس نے بتایا کہ اس کے پیچھے ایک واقعہ ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا واقعہ ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ بہت پہلے کی بات ہے کہ ایک بار کوئی نیک بزرگ ان قبائلیوں کے پاس تبلیغ کے لیے آئے۔ ان بزرگ نے وہاں کے لوگوں کو نماز، روزہ، زکوۃ وغیرہ کی پابندی کی تلقین کی۔ وہاں قیام کے دوران ان بزرگ نے دیکھا کہ اس علاقے کے کچھ لوگ غریب ہیں اور وہ بہت مشکل سے اپنے کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ غربت کی وجہ سے وہ لوگ پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ ان بزرگ نے سوچا کہ یہ لوگ بہت سفید پوش اور خوددار ہیں۔ کسی سے مانگنا پسند نہیں کرتے۔ اس لیے ان بزرگ نے ایک ایسی راہ نکالی جس سے ان غریب اور مفلس لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہو اور انکی خوداری پر بھی حرف نہ آئے۔ ان بزرگ نے اس علاقے کے سب لوگوں سے کہا کہ اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کریں اور اپنے تندور کی پہلی روٹی اللہ کے نام پر خیرات کریں۔ وہ روٹی جس کے بھی حصے میں آئے وہ اس روٹی کو اپنے لیے عزت کا باعث سمجھے۔ سب لوگوں نے ان بزرگ سے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔ وہ بزرگ ان لوگوں سے عہد لے کر اس علاقے سے روانہ ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد جب لوگوں نے روٹیاں پکائیں تو سب نے پہلی روٹی خیرات کرنے میں جھجھک محسوس کی اور سوچا کہ کل سے سب روٹی خیرات کریں گے۔ جیسے ہی سب نے کھانے کے لئے روٹی کا لقمہ توڑا تو انہیں معلوم ہوا کہ ان سب کی روٹیاں کڑوی ہو چکی ہیں۔ وہ سب لوگ بہت پچھتائے اور شرمندہ ہوئے کہ انہوں نے ان بزرگ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا تو انہیں یہ سزا ملی ہے۔ علاقے کے لوگوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ دو لوگ جاکر ان بزرگ سے معافی مانگیں گے۔ دو نوجوانوں کو اس کام کے لیے منتخب کیا گیا۔ وہ نوجوان اس راستے پر چل نکلے جس راستے پر وہ بزرگ روانہ ہوئے تھے۔ راستے میں وہ ایک جنگل سے گزرے۔ اس جنگل میں ایک جگہ انہیں وہ بزرگ ملے۔ ان دونوں نے بزرگ کو ساری بات بتائی اور ان سے معافی مانگی۔ بزرگ نے کہا کہ انہوں نے کوئی بددعا نہیں دی۔ یہ خدائی معاملہ ہے۔ اس کی معافی وہ اللہ سے مانگیں۔ وہ دونوں ان بزرگ کا پیغام لے کر آ ہی رہے تھے کہ ان کے پہنچنے سے پہلے ہی ایک بھوک سے بلکتے بچے نے روٹی کا لقمہ توڑا تو معلوم ہوا کہ اب وہ روٹیاں کڑوی نہیں رہی ہیں۔ سب لوگوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور تب سے لے کر آج تک وہ لوگ اپنے تندور کی پہلی روٹی کو اپنے لئے کڑوا تصور کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خیرات کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے علاقے میں کوئی بھی بھوکا نہیں سوتا اور انکی خوداری کو بھی ٹھیس نہیں پہنچتی۔

قبائلیوں کی یہ رسم اگر ہم بھی اپنا لیں تو ہمارے محلوں اور اردگرد میں بھی کوئی بھوکا نہ سوئے۔

Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت

خوداعتمادی