وقت کی قدر




یہ یونیورسٹی کے دنوں کی بات ہے۔ ہم تین دوست تھے ۔ میں ہمزہ اور احمد۔میں اور احمد پڑھائی کے معاملے میں لاپرواہی نہیں برتتے تھے مگر حمزہ کافی لاپرواہ تھا ۔ اسے پڑھائی میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔اسے اپنی نیند بہت پیاری تھی ۔وہ اکثر اپنی نیند پوری کرنے کے لیے یونیورسٹی سے چھٹی کر لیتا تھا۔ ہم جیسے تیسے کر کے اس کی حاضری تو لگوا دیتے پر ہم اس کو سمجھاتے کہ یہ وقت بہت قیمتی ہے۔ اس وقت کو ضائع مت کرو یہ وقت چلا گیا تو واپس نہیں آئے گا۔ مگر وہ ہماری باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا اور ہمشہ یہی کہتا کہ کچھ نہیں ہوتا یار ۔وہ اسائمنٹ اور پراجیکٹ وغیرہ بھی ہم لوگوں سے ہی کروا لیتا تھا۔غرض یہ کہ وہ کوئی کام بھی خود نہ کرتا ۔اگر کس  دن زیادہ دھوپ ہوتی تو بھی وہ چھٹی کر لیتا اور اگر بارش ہوتی تو بھی وہ چھٹی کر لیتا۔ امتحان میں بھی وہ نقل کر کے پاس ہو جاتا ۔اس وقت اس کو دیکھ کر ہم سوچتے تھے کہ یار اس کے مزے ہیں جب دل چاہا یونیورسٹی سے چھٹی کر لی اور امتحان میں بھی پاس ہو جاتا ہے۔

اس طرح کرتے کرتے یونیورسٹی سے فارغ ہو کر ڈگری لینے کے بعد نوکری کا وقت آیا تو ہم نے اپنی ڈگری سے متعلقہ سرکاری نوکری کے لیے ٹیسٹ دیا۔ ٹیسٹ میں سوالات وہی تھے جو ہم نے پڑھے ہوئے تھے۔ ہم تینوں نے ٹیسٹ دیا۔ میں اور احمد ٹیسٹ میں پاس ہو گئے مگر حمزہ ٹیسٹ میں پاس نہ ہو سکا۔ ہم نے اسے سمجھایا کہ دل چھوٹا نہ کرے۔ دوبار کوشش کرے انشاء اللہ پاس ہو جائے گا۔ اس نے متعدد جگہ ٹیسٹ دیئے مگر پاس نہ ہو سکا کیونکہ اس نے یونیورسٹی میں پڑھائی پر دھیان نہیں دیا تھا۔ لاکھ کوششوں کے بعد بھی حمزہ کو کوئی نوکری نہ ملی۔ آخرکار اس نے گھر کا خرچ چلانے کے لیے ٹھیلا لگا لیا۔ آج جس دن بارش ہوتی ہے یا طبیعیت خراب ہوتی ہے تو صرف ایک فون کرنے پر دفتر سے چھٹی مل جاتی ہے مگر حمزہ کو ہر حال میں ٹھیلا لگانا ہی پڑتا ہے۔ ہم سارا دن سکون سے ایئر کنڈیشنر پر بیٹھتے ہیں اور حمزہ سارا دن دھوپ پر کھڑا رہتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ وقت کی قدر کریں اور اپنے وقتی آرام کے لیے اپنا مستقبل نہ برباد کریں

Comments

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت

خوداعتمادی