لالچ



پچھلے سال گرمیوں کی بات ہے میں اور میرے کزنز چھٹیوں میں اپنے گاؤں گئے۔ ہم نے سوچا کہ صبح جلدی گھر سے روانہ ہوں گے تاکہ وقت پر پہنچ جائیں اس سے یہ ہم صبح سات بجے والی گاڑی پر سوار ہو گئے۔ گاؤں میں ہمارے دادا جان کا فارم ہاؤس تھا ہمارے لئے وہاں پر رہنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ سارے راستے ہم نے خوب مزے کیے اور حسین نظاروں سے بھی لطف اندوز ہوئے۔
 
ہم تقریبا رات کے 9 بجے اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ وہاں پر ملازم ہماری خدمت کے لئے موجود تھے۔ چونکہ رات ہوتی تھی اور ہم سارا دن کے سفر سے تھکے ہوئے بھی تھے اس لیے کھانا کھا کر سو گئے۔ صبح دس بجے سب اٹھے اور ناشتہ کرنے کے لیے میز پر اکٹھے ہوئے۔ وہاں سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ابھی ناشتے کے بعد سب گھومنے کے لئے نکلیں گے۔ سیر کا آغاز کرنے کے لیے ہم نے سب سے حسین جگہ کا انتخاب کیا۔ ناشتے کے بعد سب گھومنے کے لیے نکلے۔ تھوڑی دیر بعد ہم اس جگہ پہنچ گئے۔ اس دن موسم خوشگوار تھا اور اس جگہ تو ویسے بھی پانی بہہ رہا تھا۔ میرے ایک کزن کو تصویر کشی کا بہت شوق تھا۔ وہ اس شوق کی تکمیل کے لیے اس جگہ کی تصویریں بنانے لگا۔ میں اور میرا ایک اور کزن ارسلان ہم بھی ایک طرف کو چلنے لگے۔ چلتے چلتے ہماری نظر ایک شخص پر پڑی جو سڑک کے کنارے بیٹھا تھا اور صدا لگا رہا تھا کہ پیسے ڈبل، پیسے ڈبل۔ ارسلان کہنے لگا کہ آؤ اس کے پاس چلیں۔ میں نے کہا چلو۔ ہم اس شخص کے پاس گئے تو وہ کہنے لگا کہ آؤ پیسے ڈبل کروا لو چند لمحوں میں اپنے پیسے دگنے کروا لو۔ میں انکار کر کے آگے بڑھنے ہی لگا تھا کہ میرا کزن ارسلان وہاں رک گیا اور اس شخص کو 500 کا نوٹ دینے کے لیے جیب سے نکالنے لگا۔ میں نے ارسلان کو سمجھایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ سب فراڈ ہوتا ہے مگر وہ پیسے ڈبل کروانے پر بضد تھا۔ ارسلان نے پیسے اس شخص کو دیے۔ اس شخص نے وہ پیسے ایک ڈبے میں ڈالے اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد اس شخص نے اس ڈبے میں سے ہزار کا نوٹ نکال کر ارسلان کو دیا۔ ارسلان بہت خوش ہو گیا اور میں حیران ہو کر اس شخص کو دیکھنے لگا۔ میں ابھی اسی شش و پنج سے باہر نہ نکلا تھا کہ ارسلان نے جلدی سے پانچ ہزار کا نوٹ اس شخص کو دے دیا کہ وہ اس کو بھی دگنا کر دے۔ اس شخص نے پھر وہی عمل دہرایا اور اب کی بار اس ڈبے میں سے دس ہزار روپے نکال کر ارسلان کو دے دیئے۔ اس سے پیسے لینے کے بعد ہم گاڑی کی طرف آگئے۔ ہمارا تیسرا کزن بھی گاڑی میں ہی موجود تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر ہم نے اس تیسرے کزن کو بھی پیسوں والی ساری بات بتائی۔ وہ بھی بہت حیران ہوا۔ اب ہم نے دوپہر کے کھانے کے لئے ایک ہوٹل کا رخ کیا۔ 

کھانا کھانے کے بعد ارسلان نے کہا کہ آج اس کے پیسے دگنے ہوئے ہیں اس خوشی میں کھانے کا بل وہ دے گا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ ارسلان نے وہی ڈبل ہو کے ملے ہوئے پیسے ویٹر کو دیئے۔ ہم سب ہاتھ دھو کر واپس آنے ہیں لگے تھے کہ اس ویٹر نے آکر ارسلان کو پیسے دیے اور کہا کہ یہ نوٹ نقلی ہے۔ ارسلان کے تو رنگ ہی اڑ  گئے۔ ہم بھی حیران ہوگئے۔ ارسلان نے جلدی سے باقی نوٹ نکال کر ویٹر کو دکھائے کہ وہ چیک کرکے بتائے ک کیا وہ بھی نقلی ہیں۔ ویٹر نے دوسرا نوٹ بھی دیکھا اور کہا کہ یہ بھی نقلی ہے۔ یہ سن کر ہماری ہنسی ہی نکل گئی۔ خیر ہم نے بل ادا کیا اور واپس آ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ہم نے مل کر ارسلان کا بہت مذاق اڑایا۔ ارسلان بہت دکھی اور شرمندہ تھا کہ اس نے لالچ کرکے اپنے اصل پیسے بھی گنوا دیے۔ اسی لیئے یہ کہتے ہیں کہ لالچ بری بلا ہے۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

وفاداربیوی

الفاظ کی طاقت

خوداعتمادی